میری اس تحریر سے میلاد کے وجوب یا بطل کو ثابت کرنا مقصود نہیں بلکہ بحث ایک ایسی روایت پر ہے جسے بخاری سے کئی جید علماء نقل کرتے ہیں۔ میرا مقصد صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ اس روایت کے اکثر حوالے غلط ہیں اور جو حوالہ درست ہے اس کے مطابق یہ حدیث ہے ہی نہیں۔
دوسری بات یہ کہ جید علماء نے اس روایت پر ایک خاص تناظر میں بحث کی، جس کو تناظر بتائے بغیر ہمارے عہد کے کچھ نام نہاد علما اس طرح ذکر کرتے ہیں جیسے کہ اس روایت سے میلاد کے جو فیوض و برکات یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں، وہی ان تمام جید علما کا منشا تھا، جنہوں نے اس روایت کو بخاری سے نقل کیا، حالانکہ سیاق و سباق سے ہٹ کر اس طرح کا تاثر دینا ایک کھلی علمی بددیانتی ہے اور طاہرالقادری سمیت یہ نام نہاد علماء ایک بہت بڑی علمی بددیانتی کے مرتکب ہو رہے ہیں جس کی تفصیل اس مضمون میں آئے گی۔
اس بحث کا آغاز 12 ربیع الاول 1438 ہجری مطابق یکم دسمبر 2017 کو ہوتا جب میرے ایک سوال "محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والے کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مانتے بھی ہیں؟" کے جواب میں کچھ دوستوں نے میلادالنبی کو درست ثابت کرنے کے لئے صحیح بخاری سے ایک روایت اور علامہ طاہر القادری کی ایک وڈیو ارسال کی۔
میں نے ان دوستوں سے گذارش کی کہ میرا سوال کچھ اور ہے، میرا موضوع میلاد ہے ہی نہیں، میرا سوال تو یہ ہے کہ کیا ہم اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی گرم جوش ہیں یا اطاعت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ محض زبانی ہے؟
مگر بات کہیں اور چل نکلی، میلاد کی برکات کے حوالے سے بخاری کی جو روایات نقل کی گئی وہ کچھ یوں تھی:
"ثوبیہ ابو لہب کی باندی تھی، اس نے ابو لہب کو جب ولادتِ محمد کی خوشخبری سنائی تو خوشی میں دو انگلیوں سے اشارہ کرکے اسے آزاد کردیا، جس نے بعد میں نونہال محمد کو اپنا دودھ پلایا، جب ابولہب مرگیا تو اس کے کسی عزیز نے خواب میں برے حال میں دیکھا، پوچھا کیا حال ہے کیا گزری؟ وہ کہنے لگا جب سے تم سے جدا ہوا ہوں کبھی آرام نہیں ملا، مگر ایک ذرا سا پانی ( پیر کے روز مل جاتا ہے)، ابو لہب نے دو انگوٹھے اور انگشت شہادت کے درمیان گڑھے کی طرف اشارہ کرکے کہا، وہ بھی اس وجہ سے کہ میں نے ثوبیہ کو آزاد کردیا تھا"
میرے فاضل دوست کا اسرار تھا کہ یہ حدیث ہے اور صحیح بخاری جلد اول میں کتاب النکاح میں موجود ہے۔
یہ روایت پڑھ کر میرے ذہن میں کچھ سوالات ابھرے جو کہ درج ذیل ہیں:
1۔ اس مبینہ حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشخبری کا ابو لہب کو سنایا جانا، اس کا باندی کو آزاد کرنا اور پھر مرنے کے بعد ایک نامعلوم رشتہ دار کا اس کو خواب میں دیکھنا، اور ابولہب کا یہ کہنا کہ پیر کے روز عذاب میں تخفیف ہوتی ہے اور ان انگلیوں سے جن سے اشارہ کرکے باندی کو آزاد کیا تھا پانی نکلتا ہے جسے پی کر وہ کچھ راحت پاتا ہے، اس سارے قصے کا نکاح اور شادی بیاہ کے باب میں ذکر کیا معنی؟
2۔ عموماً احادیث قال رسول اللہ سے شروع ہوتی ہیں یعنی رسول اللہ نے یہ کہا یا پھر ہم نے رسول اللہ کو یہ کرتے یا کہتے ہوئے دیکھا یا سنا مگر اس روایت کا آغاز اس طرح نہیں ہوتا۔
3۔ جو خواب بیان ہورہا ہے وہ بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب نہیں، کسی معلوم صحابی رضی اللہ عنہ کا بھی نہیں بلکہ ابولہب کے کسی نامعلوم رشتہ دار کا ہے، تو پھر یہ حدیث کیسے ہوئی؟
چنانچہ ہم نے اعتراض جھاڑ دیا کہ یہ حدیث معلوم نہیں ہوتی، جواب میں اس دوست نے ایک معروف شیعہ ویب سائٹ کا اسکرین شاٹ بھیجا جس میں پانچ حوالے درج تھے۔
پہلا حوالہ یہ تھا کہ یہ حدیث نمبر 5101 ہے جو صحیح بخاری کی جلد اول، کتاب النکاح میں ہے، مشکل یہ ہوئی کی بخاری جلد اول حدیث نمبر 875 پر ختم ہوجاتی ہے، اور حدیث نمبر 5101 کتاب النکاح میں ہے مگر جلد نمبر 6 میں۔
جو دوسرا حوالہ درج ہے اس کا بھی یہی حال ہے، دوسرے حوالے میں انہوں نے حدیث نمبر 4813 کا ذکر کیا اور اس ضمن میں طاہر القادری کی ایک تقریر جو کہ انٹرنیٹ پر دستیاب ہے بھیجی، طاہر القادری کا دعویٰ یہ ہے کہ یہ حدیث جسکا نمبر 4813 ہے کتاب النکاح میں ہے، مگر جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 1961 پر، مسئلہ یہ ہے کہ حدیث نمبر 4813 کتاب التفاسیر میں ہے اور یہ حدیث بھی وہ نہیں، جو بیان کی جارہی ہے۔ اور کتاب النکاح جلد 5 نہیں جلد 6 میں ہے۔ اب طاہرالقادری صاحب ہی بتائیں کہ غلط جلد اور غلط حدیث نمبر بتانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
طاہرالقادری صاحب اپنے خطاب میں امام ابن حجر عسقلانی اور دیگر کا حوالہ دیتے ہیں کہ یہ حدیث انہوں نے بھی بخاری سے نقل کی ہے. مگر کمال علمی بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ نہیں بتاتے کہ ان علماء نے، جن میں سے اکثر چودھویں اور پندرھویں صدی کے علماء ہیں، اس مبینہ حدیث کو کیوں نقل کیا؟ اور کن مباحث میں اس کا ذکر آیا؟ اس بددیانتی سے کیا فائدہ ہوا اور اصل کہانی کیا ہے؟ اس کا مفصل ذکر آگے آئے گا۔
تیسرا حوالہ اس پوسٹ میں جلد 7 کتاب النکاح کتاب نمبر 62 حدیث نمبر 038 کا دیا گیا ہے، مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ کتاب النکاح کتاب نمبر 65 ہے، جبکہ کتاب نمبر 62 فضائلِ صحابہ ہے۔ اور کتاب 62 کی حدیث نمبر 038 بھی زیربحث حدیث نہیں ہے۔ اور بالکل اسی طرح کتاب النکاح کی حدیث نمبر 038 بھی کچھ اور ہے۔
چوتھا حوالہ اس مبینہ ویب سائٹ پر بخاری جلد 6 صفحہ نمبر 764 دیا گیا ہے، جعلسازی اور واردات کا طریقہ دیکھیں کہ اب نہ حدیث نمبر ہے، نہ کتاب کا نام، صرف جلد اور صفحہ۔ اس لئے اس کی تصدیق یا تردید مشکل ہے اور میں اس ادھورے حوالے کو قابل اعتنا نہیں سمجھتا۔
آخری حوالہ اس ویب پر فتح الباری شرح البخاری کا ہے، جو کہ ابنِ حجر عسقلانی کی تصنیف ہے، جن کا تذکرہ طاہرالقادری نے اپنی تقریر میں بھی کیا، ابن حجر عسقلانی نے شرح بخاری لکھی ہے، اس لئے قرین قیاس یہی ہے کہ انہوں نے بھی صحیح بخاری سے نقل کی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ عسقلانی اور دیگر نے اسے کس ضمن میں نقل کیا اور اس سے کیا نتیجہ نکالا؟
اسی تحقیق کے دوران ایک دوست نے صحیح مسلم حدیث نمبر 037 کا حوالہ دیا جو کہ غلط ثابت ہوا اور دوسرے دوست نے صحیح بخاری ہی کی حدیث نمبر 4589 کا حوالہ دیا وہ بھی غلط تھا۔
ایک نہایت دلچسپ پہلو جس کا ہم نے اوپر بھی تذکرہ کیا ہے کہ اکثر حوالوں میں اس حدیث کو کتاب النکاح میں بتایا گیا ہے، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، کتاب النکاح میں شادی بیاہ کے مسائل ہیں، صحیح بخاری میں ہر حدیث جس موضوع پر ہے، اسی سے متعلق باب میں مندرج ہوتی ہے، یہاں تک کہ طلاق کے مسائل پر بھی ایک الگ باب ہے انہیں بھی نکاح کے باب میں شامل نہیں کیا گیا۔
اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ ابو لہب کا محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیدائش پر باندی کو آزاد کرنا اور کسی کا یہ خواب دیکھنا کہ دوزخ میں اس کے عذاب میں پیر کے روز کچھ تخفیف ہوتی ہے اور جن دو انگلیوں سے اس نے خوشخبری سنانے والی باندی کو آزاد کرنے کا اشارہ کیا تھا، ان انگلیوں سے دوزخ میں پانی نکلتا ہے جس کو پی کر وہ ملعون اپنی پیاس بھجاتا ہے۔ بھلا اس ساری کہانی کا نکاح یا شادی بیاہ سے کیا لینا دینا اور امام بخاری کیونکر اس کو کتاب النکاح کا حصہ بنائیں گے؟
اس دوران ایک اور دوست احمد ہارون نے اس بات کی نشاندہی کی کہ یہ روایت صحیح بخاری جلد نمبر 6، کتاب النکاح، حدیث نمبر 5101 میں موجود ہے۔ میں اس حدیث کو سرسری طور پر کئی بار دیکھ چکا تھا مگر زیر بحث عبارت نظر سے نہیں گزری، احمد ہارون صاحب کی نشاندہی پر جب بغور پڑھا تو ساری بات سمجھ میں آگئی اور میرے موقف کو مزید تقویت ملی کہ یہ روایت یا عبارت گو کہ بخاری میں موجود تو ہے مگر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے۔
آپ بھی پڑھیں کہ حدیث نمبر 5101، کتاب النکاح، جلد نمبر 6، صحیح بخاری ہے کیا؟ اور کیوں یہ بظاہر غیر متعلقہ سی عبارت کتاب النکاح میں جگہ بنا پائی؟
حدیث کا ترجمہ کچھ یوں ہے بخاری لکھتے ہیں:
"ہم سے حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی، انہیں زینب بنت ابی سلمہ نے خبر دی اور انہیں ام المؤمنین ام حبیبہ بنت ابی سفیان نے خبر دی کہ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میری بہن (ابوسفیان کی لڑکی) سے نکاح کر لیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم اسے پسند کرو گی (کہ تمہاری سوکن بہن بنے)؟
میں نے عرض کیا جی ہاں، میں تو پسند کرتی ہوں اگر میں اکیلی آپ کی بیوی ہوتی تو پسند نہ کرتی۔ پھر میری بہن اگر میرے ساتھ بھلائی میں شریک ہو تو میں کیونکر نہ چاہوں گی(غیروں سے تو بہن ہی اچھی ہے)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ میرے لیے حلال نہیں ہے۔ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یا رسول اللہ! لوگ کہتے ہیں آپ ابوسلمہ کی بیٹی سے جو ام سلمہ کے پیٹ سے ہے، نکاح کرنے والے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ میری ربیبہ اور میری پرورش میں نہ ہوتی (یعنی میری بیوی کی بیٹی نہ ہوتی) جب بھی میرے لیے حلال نہ ہوتی۔ وہ دوسرے رشتے سے میری دودھ بھتیجی ہے، مجھ کو اور ابوسلمہ کے باپ کو دونوں کو ثوبیہ نے دودھ پلایا ہے۔ دیکھو، ایسا مت کرو اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو مجھ سے نکاح کرنے کے لیے نہ کہو۔
عروہ راوی نے کہا ثوبیہ ابولہب کی لونڈی تھی۔ ابولہب نے اس کو آزاد کر دیا تھا۔ (جب اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدا ہونے کی خبر ابولہب کو دی تھی) پھر اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا تھا جب ابولہب مر گیا تو اس کے کسی عزیز نے مرنے کے بعد اس کو خواب میں برے حال میں دیکھا تو پوچھا کیا حال ہے کیا گزری؟ وہ کہنے لگا جب سے میں تم سے جدا ہوا ہوں کبھی آرام نہیں ملا مگر ایک ذرا سا پانی (پیر کے دن مل جاتا ہے) ابولہب نے اس گڑھے کی طرف اشارہ کیا جو انگوٹھے اور کلمہ کے انگلی کے بیچ میں ہوتا ہے یہ بھی اس وجہ سے کہ میں نے ثوبیہ کو آزاد کر دیا تھا۔"
الخ
الخ
امید ہے مکمل حدیث پڑھ کر آپ کو بھی کہانی سمجھ آگئی ہوگی، نہیں آئی تو یہ گزارشات بغور مطالعہ فرمائیں اور پھر فیصلہ کریں
1۔ یہ حدیث نمبر 5101 بلا شبہہ بخاری میں ہے اور ایک حدیث ہے کیوں کہ ام حبیبہ سے روایت یہ ام سلمہ کا رسول اکرم سے مکالمہ ہے
جو بیان کیا جا رہا ہے۔2۔ یہ حدیث کتاب النکاح میں اس لئے ہے کہ ام سلمہ اور رسول اکرم کے درمیان مکالمہ نکاح یا شادی کے موضوع پر ہے۔ اس لئے امام بخاری نے اسے بالکل درست باب میں درج کیا ہے۔
3۔ چونکہ حدیث کا ابتدائی تین چوتھائی حصہ ان سلمہ کر نبی کریم سے شادی بیاہ کے معاملے پر مکالمہ ہے لہذا جب میں نے پہلی بار نصف سے زیادہ پڑھ لیا تو یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ تو نکاح سے متعلق ہی ایک حدیث ہے اس میں ابولہب سے متعلق خواب کا ذکر نہیں، مگر توجہ دلانے پر جب آخر تک پڑھا تو خواب والی روایت مل گئی۔
اگر مندرجہ بالا باتیں درست ہیں تو پھر مشکل کیا ہے؟
مشکل یہ ہے کہ امام بخاری نے کمال دیانت اور بصیرت کا مظاہرہ کرکے حدیث کے آخر میں ایک ضمنی وضاحت، جو کہ حضور کی "رضاعی" دودھ پلانے والے ماں ثوبیہ کے بارے میں ایک راوی عروہ نے کی ہے، نقل تو کی مگر واضح طور پر لکھ دیا کہ یہ راوی عروہ کا قول ہے، نہ قولِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے، نہ ام حبیبہ کا جو ام سلمہ سے روایت کرتی ہیں، اور نہ ام سلمہ کا جن کا براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مکالمہ تھا نکاح کے موضوع پر۔
اب کوئی پوچھے طاہرالقادری سے، جو عروہ کے اس بیان کو لوگوں سے حدیث کہہ کر بیان کرتے ہیں، کہ آخر اس علمی بددیانتی کی کیا وجہ ہے کہ آپ یہ نہیں بتاتے کہ گو یہ روایت صحیح بخاری میں ہے اور ایک حدیث کے لاحقہ کے طور پر ضمناً بیان ہوئی ہے مگر یہ عروہ کا قول ہے نہ کہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔
اب آتے ہیں ان جید علماء کی طرف جنہوں نے اس روایت کو صحیح بخاری سے نقل کیا ہے۔ ان میں سے کچھ کے نام تو طاہرالقادری نے اپنے مذکورہ بالا خطاب میں لئے، بقول طاہرالقادری اس روایت کو بخاری سے نقل کرنے والوں میں ابن حجر عسقلانی کے علاوہ جلال الدین سیوطی، قسطلانی اور ان حجر مکی وغیرہم شامل ہیں اور ہمارے فاضل دوست احمد ہارون نے اس سلسلے میں امام ابن قیم اور محمد بن عبدالوہاب کی کتب کا حوالہ بھیجا۔ مگر دیکھنا یہ ہے ان جلیل المرتبہ علماء نے اس روایت کو کس سیاق و سباق میں نقل کیا ہے؟
چونکہ بخاری میں یہ روایت ایک حدیث کے لاحقہ کے طور پر موجود ہے، لہذا کسی بھی عالم نے اس روایت کی صحت پر تبصرہ نہیں کیا، اور چونکہ امام بخاری نے واضح طور پر لکھ رکھا تھا کہ یہ عروہ کا قول ہے نہ کہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ لہذا ان ائمہ نے اس روایت کے حدیث ہونے یا نہ ہونے پر بھی بحث نہیں کی۔
چودھویں سے اٹھارویں صدی تک کے ان علماء نے جن مباحث میں اس روایت کو نقل کیا ان میں سے اہم موضوع مشرک یا کافر کی کسی نیکی کے بدلے آخرت میں اس کے عذاب جہنم میں تخفیف اور اس نیکی کا ثواب ملنے یا نہ ملنے کا تھا۔
ایک نظر ذرا ان آئمہ کے زمانے پر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کے سب چودھویں صدی عیسوی کے بعد کے علماء ہیں جبکہ ایک محمد بن عبدالوہاب تو اٹھارویں صدی سے ہیں۔
ابن قیم الجوزیہ پیدائش 1292 وفات 1350
ابن حجر عسقلانی پیدائش 1372 وفات 1449
جلال الدین سیوطی پیدائش 1445 وفات 1505
احمد بن محمد القسطلانی پیدائش 1448 وفات 1517
ابن حجر مکی پیدائش 1503 وفات 1566
محمد بن عبدالوہاب پیدائش 1703 وفات 1792
ابن حجر عسقلانی پیدائش 1372 وفات 1449
جلال الدین سیوطی پیدائش 1445 وفات 1505
احمد بن محمد القسطلانی پیدائش 1448 وفات 1517
ابن حجر مکی پیدائش 1503 وفات 1566
محمد بن عبدالوہاب پیدائش 1703 وفات 1792
یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ امام بخاری کا زمانہ( پیدائش 810 اور وفات 870 عیسوی ) ان مندرجہ بالا ائمہ سے کم از کم 500 سے لے کر 900 سال پہلے کا ہے۔
چودھویں صدی عیسوی اور اس کے بعد کا زمانہ وہ زمانہ ہے جس میں عالم اسلام بالعموم اورعالم عرب بالخصوص اپنے عروج سے زوال کی طرف گامزن تھا اور دنیا بھر میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور دین کو عجمی فلسفوں کی آلودگی سے پاک کرنے کا بیڑہ ان جید علماء نے اٹھایا، ابن قیم چودھویں صدی کے اوائل اور محمد بن عبدالوہاب اٹھارویں صدی میں ایسی ہی تحریکوں کے سرخیل شمار کئے جاتے ہیں، جنھوں نے دین کو آلودگی سے پاک کرنے کے لئے معرکۃ الآرا تحریریں لکھیں، جو طاہرالقادری جیسوں کے نزدیک متشدد ہو سکتی ہیں، اسی لئے وہ ان کا ذکر نہیں کرتے مگر عسقلانی، سیوطی، قسطلانی اور مکی کا ذکر کرنا نہیں بھولتے۔ تاہم علمی بددیانتی کی انتہا دیکھیں کہ جن مباحث میں یہ تمام ائمہ عروہ کی ابولہب سے متعلق خواب والی روایت کو بیان کرتے ہیں، ان مباحث کا تذکرہ طاہر القادری گول کر جاتے ہیں۔
اس مقام پر یہ بات سمجھنا ضروری ہے، کہ تیسری صدی ہجری اور دسویں صدی عیسوی کے بعد جہاں دنیا میں بڑے بڑے مفسرین، محققین، محدثین، مجددین پیدا ہوئے، وہیں یونانی، رومی، ایرانی اور ہندی فلسفہ کے زیر اثر بہت کچھ ایسا تصنیف ہوا جس سے آگے چل کر اسلام میں مستقل تقسیم کی عمارات تعمیر ہوئیں۔
بقول اقبال :
ذرا سی بات تھی اندیشۂ عجم نے اسے ۔۔۔
بڑھا دیا ہے فقط زیب داستاں کے لئے ۔۔۔
بڑھا دیا ہے فقط زیب داستاں کے لئے ۔۔۔
اور ان اجنبی اور عجمی نظریات اور فلسفوں کے رد میں ابن قیم سے لے کر محمد بن عبدالوہاب تک ایسے کئی مجددین اٹھے، جنہوں نے دین کو اس کی اصل پر استوار کرنے کی عظیم الشان جدوجہد کی۔
اس ضمن میں جو دوسری بات پیش نظر رہنی چاہیے وہ یہ کہ ان ائمہ نے کہیں بھی اس روایت کو عید میلاد النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے وجوب یا رد کے لیے استعمال نہیں کیا۔ بلکہ مشرک کی کسی نیکی کے بدلے عذاب میں تخفیف کے موضوع پر بحث میں اس روایت کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے ایک استثنی قرار دیا اور لکھا کہ اگر یہ خواب سچا ہے اور واقعی ابولہب کے عذاب میں کمی ہوتی ہے تو یہ ایک منفرد واقعہ اور استثنیٰ سمجھا جانا چاہئے نہ کہ مشرکین کی نیکیوں کے بدلے ان کے عذاب میں تخفیف کا عمومی کلیہ۔
اب کوئی پوچھے طاہرالقادری جیسے خائین سے کہ جب آپ یہ روایت عوام کو سناتے ہیں تو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ :
1۔ یہ عروہ کی روایت ہے حدیث نہیں۔
2۔ جن ائمہ نے اس کو نقل کیا انہوں نے اس روایت کے صحیح بخاری میں موجود ہونے کی بناء پر یہ اس بحث میں نقل کیا کہ آیا اس روایت سے مشرک کے عذاب میں تخفیف ثابت ہوتی ہے کہ نہیں؟
3۔ آپ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ ان میں کسی امام نے جن کا آپ نام لے کر تذکرہ کرتے ہیں اس روایت سے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جواز نہیں تراشا۔
کیا اس طرح سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان کرنا علمی بددیانتی نہیں ہے؟ جس کے طاہرالقادری مرتکب ہوئے۔ چونکہ طاہرالقادری اپنے معصوم معتقدین پر وجوب عید میلاد النبی اور اس کے فیوض و برکات ثابت کرنا چاہتے ہیں، اس لئے اگر وہ پوری بات بتاتے تو ان کے موقف کو کوئی تقویت نہ ملتی لہذا انہوں نے انتہائی ہوشیاری سے تفصیلات اور پس منظر نکال کر صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا ان تمام جلیل القدر آئمہ نے یہ روایت بخاری سے نقل کی ہے۔ تاکہ ان کی بات میں وزن پیدا ہوسکے۔
اب ذرا یہ بات سمجھ لیں کہ جب بھی کوئی آپ کے سامنے کوئی حدیث یا روایت نقل کرے، جس کا تعلق براہ راست دین اور ایمان سے ہے، تو محض اس کے دئے گئے حوالوں کو بعینہ تسلیم کرنے کے بجائے خود ذرا سی کوشش کریں تو معلوم ہوگا کہ بہت سے لوگ، بشمول طاہر القادری جیسے نام نہادعلما، جو حوالے دھڑلے کے ساتھ بیان کرتے ہیں، وہ دراصل غلط ہوتے ہیں۔ اس لئے میں کسی کی بھی تحریر یا تقریر میں دیئے گئے حوالوں کو من و عن تسلیم کرنے کے بجائے خود تلاشنے کا قائل ہوں۔ میں نہ شخصیات سے مرعوب ہوں، نہ ان کے بھاری بھرکم حوالوں سے مرعوب ہوتا ہوں۔
اور یہ بھی سمجھ لیں کہ عمومی دنیاوی کلیہ تو یہ ہے کہ یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے، یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے، مگر دین میں کون کہہ رہا ہے کی بڑی اہمیت ہے، اسی لئے محدثین نے اکثر ایسی احادیث کو مسترد کیا ہے جن کے کسی راوی کے کردار پر شکوک و شبہات تھے، یا کوئی ایک بھی راوی شیعہ، رافضی یا خارجی تھا۔ اور اس مقصد کے لئے ایک پورا علم وجود میں آیا جسے ہم علم الرجال کے نام سے جانتے ہیں، جو کہ ضخامت میں کئی لائبریریوں کا مواد ہے۔
چونکہ میرے دوست کی طرف سے ارسال کردہ پوسٹ ایک مشکوک شیعہ ویب سائٹ سے لی گئی تھی، بخاری کے تمام حوالے غلط تھے، اس لئے ناقابل اعتبار ہوئی، اور طاہرالقادری نے ابن حجر عسقلانی اور دیگر کا حوالہ تو دیا کہ انہوں نے اسے بخاری سے نقل کیا ہے، مگر یہ نہیں بتایا کہ کس بحث میں۔
دوسری بات یہ کہ احادیث کو بطور دلیل استعمال کرتے ہوئے میں احتیاط برتتا ہوں، چاہے مسلم اور بخاری سے ہوں، قرآن تو حجت ہے، وہ بھی ترجمہ نہیں، تفسیر نہیں، کیوں کہ مترجمین یا مفسرین سے ترجمانی یا تفسیر میں بھول چوک کا احتمال رہتا ہے، وقت کے ساتھ قرآنی آیات کی تفہیم یا تفسیر بدل سکتی ہے اور عربی زبان کے ایک لفظ کے کسی دوسری زبان میں کئی مترادف ہوسکتے ہیں۔
مگر حدیث کا معاملہ یہ ہے کہ ایک تو تدوین آنحضرت سلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے قریب قریب دو صدی بعد ہوئی، دوسرا اس میں درجہ بندیاں ہیں، متفق علیہ سے موضوع تک۔ پھر موضوع معنی گھڑی ہوئی یا جھوٹی بھی بھلا کوئی حدیث ہوتی ہے، وہ تو حدیث ہے ہی نہیں کیوں کہ گھڑی ہوئی ہے، مگر نجانے کیوں محدثین نے اسے بھی انتخاب میں شامل کرلیا، جو آج تک وجہ نزاع بنی ہوئی ہیں۔ کثیر تعداد میں خلف اور کچھ سلف بھی ایسی احادیث استدلال میں بلا تردد استعمال کرتے ہیں، اور امت میں اکثر اختلافات ایسی احادیث ہی کی بنیاد پر ہیں ورنہ قرآن پر تو کوئی دو رائے ہے ہی نہیں۔
ایسی ہی احادیث کی فہرست میں جن پر ذرا کم بھروسہ کرنا چاہئے، ضعیف، مفرد اور مرسل احادیث بھی ہیں۔ ایسی احادیث یا تو کمزور ہوتی ہیں، یا کسی ایک ہی راوی سے مروی یا اس میں راویوں کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اور پھر کچھ احادیث ایسی بھی ہیں، چاہے وہ صحیح ہوں، مفرد، مرسل، ضعیف یا موضوع، مگر وہ قرآنی احکام یا آیات سے متصادم ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ میں ایسی کسی حدیث کو دلیل نہیں سمجھتا جو قرآن سے متصادم ہو۔
چوتھی بات یہ کہ جہاں سلف اور خلف جید علما و فقہا کا از حد احترام ہے، وہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ہماری طرح ان میں سے ہر ایک کا ایک خاص نکتہ نظر اور ان کی بھی ایک خاص فکر و تربیت تھی، اور ان کے زمانے میں جو مباحث اہم تھے ہمارے زمانے میں غیر اہم ہیں، ان کو تحقیق کے لئے جو وسائل دستیاب تھے وہ ان کے زمانے اور علوم کے مطابق تو شاید جدید ہوں مگر آج کے مقابلے میں انتہائی فرسودہ تھے، لہذا سلف ہوں یا خلف جہاں ہم ان کا بے حد احترام کرتے ہیں، وہیں ان کی کسی بھی رائے سے، جدید علمی اور سائنسی تحقیق اور دریافتوں کی روشنی میں، بصد احترام اختلاف بھی کرسکتے ہیں۔ اسی وجہ سے میرے لئے یہ دلیل کہ فلاں یا فلاں نے اس کو نقل کیا ہے نسبتا کم اہمیت کی حامل ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ کس ضمن میں نقل کیا ہے؟ کیا نتائج اخذ کئے ہیں؟ اور جدید زمانے میں اس کا انطباق کیسے ہو؟
اب گفتگو سمیٹتے ہوئے ابو لہب والی اس روایت کی طرف آتے ہیں۔ ایک تو یہ حدیث نمبر 5101 جلد اول میں نہیں ہے، دوسری روایت 4813 جلد 5 میں نہیں ہے۔ وہ حوالہ بھی غلط ہے۔ اور پھر یہ عروہ کی روایت ہے حدیث نہیں ہے۔ تو اب خواہ اسے عسقلانی نے کسی بحث میں لیا ہو یا عبدالحق محدث دہلوی نقل کریں، کیا فرق پڑتا ہے۔
یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ اس روایت میں ایک خواب بیان ہوا ہے، اور خواب بھی نبی علیہ الصلوات والسلام کا نہیں اور جب خواب غیر نبی کا ہو تو کئی شکوک و شبہات پیدا ہوجاتے ہیں۔ صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5101 کے مطابق خواب ابو لہب کے ایک رشتہ دار نے دیکھا جبکہ طاہر القادری صاحب کے بقول حضور کے چچا حضرت عباس سے مروی ہے۔
خواب چاہے ابو لہب کے رشتہ دار دیکھیں اور اسے روایت ام حبیبہ کریں یا حضرت عباس رضی اللہ سنہ سے امام بخاری رحمہ اللہ علیہ روایت کریں، میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ حدیث کیونکر کہلائے گا جبکہ امام بخاری واضح طور پر لکھتے ہیں کہ یہ عروہ کا قول ہے؟
اسی لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ حدیث نہیں ہے، کیوں نہ یہ قول رسول ہے، نہ فعل رسول، حتی کہ خواب بھی رسول کا نہیں ہے۔ اس لئے میں اسے حدیث کیسے مانوں؟
پھر خواب ہے کیا کہ دوزخ میں ابو لہب کے عذاب میں ہر پیر کے دن تخفیف ہوتی ہے اور اس تخفیف کے دوران اس کی انگلیوں سے پانی رواں ہوتا ہے جسے پی کر وہ دوبارہ ہفتہ بھر کا عذاب جھیلنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ اور یہ تخفیف اور انگلیوں سے پانی کا اجرا ابولہب کی اس نیکی کے سبب ہے کہ محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیدائش کی خوشی میں اس نے ان دو انگلیوں کے اشارے سے اپنی باندی کو آزاد کیا تھا۔
اب خواب وہ بھی دوزخ کے بارے میں اور خواب میں اس ابولہب کے عذاب میں تخفیف؛ جسے قرآن نے نہ صرف ملعون اور معطون کہا بلکہ سخت ترین الفاظ میں اس کی ہلاکت اور عذاب کی وعید سنائی۔ اور اللہ نے واضح الفاظ میں کہا کہ ابو لہب کی کوئی کمائی کوئی نیکی اس کے کسی کام نہ آئے گی۔
اب یہ بھی سمجھ لیں کہ ابو لہب کو قرآن میں اللہ نے نام لے کر ہلاک ہونے، عذاب میں مبتلا کرنے اور اس کے تمام اعمال ضائع کرنے جیسی سخت وعید کیوں سنائی؟
باندی کو تو بقول طاہرالقادری "ابولہب نے محمد بن عبداللہ کی ولادت کا سن کر آزاد کیا"، مگر بدبخت ابولہب کو جب اللہ کے رسول صلی اللہ عیلہ وسلم نے بطور نبی اسلام کی دعوت دی تو اس نے جواب میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ "تو برباد ہو، تو ہلاک ہو" (اور یہ الفاظ متعدد احادیث میں بخاری اور مسلم دونوں میں موجود ہیں)، تو اللہ نے اس کو جواب میں سخت عذاب کی وعید دی۔
اب ذرا اس گستاخ کے لئے قرآن میں اللہ تعالی کی تجویز کردہ ہلاکت کی وعید کے الفاظ بھی بغور دیکھیں، قرآن کے پارہ یا جز نمبر 30 میں
سورہ نمبر 111 سورہ اللہب یا المسد کے الفاظ ملاحظہ فرمائیںترجمہ
ٹوٹ گئے ابولہب کے ہاتھ اور وہ ہلاک ہوا {1} نہ تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا اور نہ جو کچھ اس نے کمایا {2} وہ جلد بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو گا {3} اور اس کی بیوی بھی جو ایندھن سرپر اٹھائے پھرتی ہے {4} اس کے گلے میں مونج کی رسی ہوگی {5
ٹوٹ گئے ابولہب کے ہاتھ اور وہ ہلاک ہوا {1} نہ تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا اور نہ جو کچھ اس نے کمایا {2} وہ جلد بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو گا {3} اور اس کی بیوی بھی جو ایندھن سرپر اٹھائے پھرتی ہے {4} اس کے گلے میں مونج کی رسی ہوگی {5
پہلی آیت تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ میں تَبَّ صیغہ ماضی کے لئے ہے یعنی فیصلہ ہو چکا جو کہ اٹل ہے اس کے ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہوگیا اور بچاؤ کا کوئی ذریعہ نہیں، واضح رہے کہ ان مکی آیات کا جب نزول ہوا اس وقت ابو لہب زندہ تھا، بلکہ ان آیت کے نزول کے بعد کئی سال زندہ رہا اور سن دو ہجری میں غزوہ بدر کے بعد جہنم و اصل ہوا۔
دوسری آیت مَآ اَغْنٰی عَنْہُ مَالُہ وَمَاکَسَبَ میں ما کا استعمال کل کمائی اور اعمال کی رائیگاں جانے کی وعید دیتا ہے۔ اس میں کسی قسم کا کوئی استثنی نہیں ہے، یعنی کچھ کام نہیں آئے گا، قرآنی طرز بیان کے مطابق اگر استثنیٰ دینا ہوتا تو عمومی بیان کے بعد الا کے استعمال سے دیا جاتا جیسے کہ کلمہ لا الہ میں تمام الہوں کے انکار کے بعد الا اللہ کے ذریعے کہا گیا کہ کوئی معبود نہیں مگر سوائے اللہ کے۔ ابولہب اور اس کی بیوی کے لئے ایسا کوئی استثنیٰ اللہ نے قرآن میں نہیں دیا، تو پھر کیا ایسے بد بخت اور مشرک کی کوئی نیکی مرنے کے بعد دوزخ میں اس کے کام آنے والی ہے؟ یہ عقل سلیم، قرآن اور سنت الہی کے خلاف ہے۔
اس لئے میں اس خواب کو صحیح بخاری میں موجود ہونے کے باوجود (جو کہ بقول امام بخاری عروہ کا قول ہے، حدیث رسول نہیں)، مشکوک سمجھتا ہوں اور اسے دلیل نہیں مانتا۔
یہ میری رائے ہے، اگر میں کہیں غلطی کر رہا ہوں تو براہ کرم اصلاح فرما دیں۔
جزاک اللہ خیراً کثیراً
آپ کا تبصرہ ہمارے لئے اہمیت رکھتا ہے۔