السلام کی ہندوستان میں دریافت نو
پس منظر
میں ایک طویل عرصے سے تقابل ادیان کا طالب علم ہوں۔ سیاحت اور کاروباری ضروریات کے تحت میں نے ایشیا ور افریقہ کے بہت سے ممالک کا سفر کیا۔ اور اس دوران مجھے متعدد نسلی، ثقافتی اور مذہبی پس منظر رکھنے والے افراد سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ میں ایک روایتی پاکستانی مذہبی رجحان رکھنے والے گھرانے میں پیدا ہوا اور پلا بڑھا جس کی وجہ سے دنیا، اس میں رہنے والے لوگوں اور ان کی ثقافت اور مذہب کے بارے میں مرے خیالات ابتداٌ روایتی اور کسی حد تک محدود تھے۔ تاہم مسلسل سفر اور اس دوران مختلف رنگ و نسل، ثقافت اور مذاھب کے لوگوں سے ملاقات نے میرے ذہنی اور فکری افق کو وسعت دی۔
میں ہمیشہ سے ایسے سوالات کے تسلی بخش جوابات کا متلاشی تھا جو مجھے مرے گھر یا مسجد سے نہیں ملتے تھے مثلاٌ دنیا کیونکر وجود میں آئی؟ تخلیق انسانی کے پیچھے کیا راز پوشیدہ تھے؟ اتنی بڑی کائنات میں آخر زمین پر ہی زندگی کے آثار کیوں پائے جاتے ہیں؟ اور ہر مذہب کے پیرو کار اپنے
مذہب کی سچائی کے دعوے دار ہیں، لیکن وہ کونسا مذہب ہے جو ان ا ور ان جیسے دیگر منطقی سوالات کے جوابات دے سکتا ہے؟
تلاش اور جستجو کا یہ سفر مجھے کئی دلچسپ مقامات تک لے گیا، میں کئی مذاہب کے اہل علم اوراہل مرتبہ لوگوں سے ملا، میری جستجو آغاز میں مجھے بھارت میں ہندو مندر اور سکھ گردوارے لے گئی، سنگاپور، انڈونیشیا، ملایشیا اور کینیا میں عیسائی مذہب کے مختلف فرقوں کے کلیساؤں میں گیا ، سری لنکا ، تھائی لینڈ اور چین میں بدھ مت کی عبادت گاہوں میں پہنچا۔ نیروبی کینیا میں یہودی مذہب کے سناگاگ جانے کا موقع ملا، تو نئی دہلی میں بہائی مذہب کے لوٹس ٹیمپل گیا، اور یہی جستجو مجھے انڈونیشیا اور کینیا میں قادیانی مذہب کی عبادت گاہوں تک کے گئی۔س
میں پاکستان سے ایران میں شیعہ فرقے کے مقدس مقامات کی زیارات پر نکلا اور امام بارگاہوں میں گیا، اور بوہری و اسماعیلی فرقے کی مساجد اور جماعت خانے میں بھی جانے کا موقع ملا۔
تلاش حق کے اس سفر میں مجھے کچھ سوالوں کے جوابات تو مل گئے تاہم بہت سے جوابات کی تلاش ابھی باقی ہے، اس دلچسپ سفر نے مجھے ایک نئی دنیا سے روشناس کروایا، اس دوران میں ہر رنگ، نسل، مذہب اور جغرافیائی حد بندیوں میں غیر معمولی انسانوں سے ملا، میں نے مقدس اور بعض صورتوں میں ممنوعہ کتابوں اور صحیفوں کا مطالعہ کیا، انتہائی دلچسپ فلسفوں ، نظریات اور روایات سے متعارف ہوا۔
قادیانیت سے تعارف
انہی دلچسپ ملاقاتوں میں سے ایک قادیانیت، یا احمدیت، جیسا کہ وہ خود کو بلاتے ہیں، سے تعارف تھا - اس کا آغاز ١٩٨٩ میں کراچی میں ہوا جن دنوں میں یونیورسٹی کا طالب علم تھا اور میری ملاقات ایک ایسے نوجوان سے ہوئی جس سے ہر کوئی کتراتا تھا - میں نے پوچھا کہ وہ کیوں اتنا تنہا، الگ تھلگ، سہما سہما رہتا ہے اور دوسرے اسے دوست کیوں نہیں بناتے، تو مجھے بتایا گیا کہ وہ ایک قادیانی ہے۔ یہ پہلی ملاقات مختصر تھی لیکن میں نے نہ صرف اس نو جوان سے دوستی کی بلکہ اس کے گھر بھی گیا ور اپنے تجسس کی تسکین کے لئے اس سے کچھ سوالات بھی کیے۔
پہلی بار میں نے مرزا غلام احمد قادیانی کی تصویر اسی دوست کے گھر گلشن اقبال میں دیکھی، خشخشی داڑھی والا ایک پختہ عمر کا شخص جو ایک ہاتھ میں عصا تھامے، دوسرے ہاتھ سے ایک کرسی کے سہارے کھڑا تھا، اس نے سر پر ایک طرح دار پگڑی باندھ رکھی تھی، وہ ایک کالے اونی اوور کوٹ یا شیروانی میں ملبوس تھا جس کے نیچے سفید پاجامہ زیب تن کر رکھا تھا۔ یہ ایک متاثر کن پورٹریٹ تھا جو غالباً چار فٹ اونچے
بعد ازاں میرے دورہ نیروبی کے دوران میری ملاقات ایک اور شخص سے ہوئی جو قادیانی تھا اور نیروبی جمخانہ کے قریب رہائش پذیر تھا ۔ نیروبی جمخانہ وہ میدان ہے جسے کرکٹ کی تاریخ میں پاکستانی آل راؤنڈر بوم بوم آفریدی نے اپنے کرئیر کی پہلی ہی اننگ میں تاریخ کی تیز ترین سنچری ٣٧ گیندوں پر ١٠٠ رن بنا کر دنیا بھر میں شہرت بخشی - وہ جمعہ کا دن تھا تاریخ چار اکتوبر انیس سو چورانوے اور میں بذات خود میدان میں پویلین انڈ پر ایک ڈھلوان پر بنی فرشی نشست سے یہ تاریخ رقم ہوتے دیکھ رہا تھا۔ یہ اسی سال کی بات ہے کہ نیروبی میں مجھے پہلی بار یہ موقع ملا کہ میں قادیانی عبادت گاہ کو اندر سے دیکھوں ۔ یہیں میں نے پہلی بار انھیں اذاں دیتے سنا اور نماز پڑھتے دیکھا ،بلکل اسی طرح جیسے سنی حنفی مسلمان کرتے ہیں۔ اور یہیں میں نے مرزا غلام احمد کی متعدد کتابوں کا مطالعہ بھی کیا۔
عیسائیوں، ہندووں اور سکھوں کو مناظرے کی دعوت پر مشتمل چھوٹے چھوٹے کتابچوں سے لے کر مرزا کی کتب کے معروف مجموعے "براہین احمدیہ"، "روحانی خزائن" اور اس کی عربی زبان میں تصنیف "حجت الله" تک جس کی بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک الہامی کتاب ہے جو وحی کی ذریعے نازل ہوئی۔ جملہ ٨٣ کتابیں ہیں جو مرزا غلام احمد سے منسوب کی جاتی ہیں۔ میں ایک ایک کر کے ان کتب کا مطالعہ کرتا گیا۔ اور جب روحانی خزائن نامی مجموعے کو پڑھا تو مجھے مرزا کی شخصیات، اس کے عقائد اور دعوؤں کا ارتقا سمجھ میں آتا گیا۔
قادیانی عقیدے کی بنیاد:
مرزا غلام احمد کی کتب کے مطالعے سے مجھ پر منکشف ہوا کہ اس کے کام میں کوئی نیا پن نہیں تھا
ماسوائے دو ایسے نکات کے جو احمدیت یا قادیانیت کو دیگر مذاہب سے منفرد کرتے ہیں۔ پہلی بنیادی بات اس کا یہ کہنا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اگرچہ مصلوب تو کر دیا گیا تھا، تاہم صلیب پر ان کی موت واقع نہیں ہوئی تھی، ان پر بیہوشی طاری کر دی گئی تھی اور یوں وہ اس لعنتی موت سے بچا لئے گئے تھے جو انجیل (استثناء 21:22) میں مجرموں کے لئے مذکور ہے۔ مرزا کے بقول حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر مرنے کے تین دن بعد زندہ نہیں ہوئے بلکہ اس تمام عرصے قبر کے طور پر بنائی گئی ایک غار میں زخمی، بے ہوش مگر زندہ ہی تھے۔ جہاں ان کی مرہم پٹی ہوتی رہی اور وہ تیسرے دن ہوش میں آئے تو غار سے باہر آ گئے۔
دوسرا بنیادی نکتہ یہ کہ قبر سے زندہ نکلنے کے بعد انہیں آسمان کی طرف اٹھایا نہیں گیا، بلکہ وہ مشرق کی جانب فرار ہو کر دمشق پہنچے، جہاں سے وہ بنی اسرائیل کی گم شدہ بھیڑوں (قبیلوں) کی تلاش میں ایران، عراق ور افغانستان سے ہوتے ہوئے سری نگر، کشمیر آن پہنچے ۔جہاں انہیں قبول عام حاصل ہوا اور وہ اپنے طبعی عمر پوری کرکے ١٢٠ سال کی عمر انتقال کرگئے اور وہیں سری نگر کے ایک محلے خانیار میں مدفون ہیں۔
مرزا غلام احمد کے یہ دعوے نہ صرف یہودیوں اور عیسائیوں کے حضرت عیسیٰ کی صلیب پر موت اور مرنے کے بعد زندہ ہونے کے عقیدے سے متصادم تھے بلکہ قرآن ور سنت پر مبنی اکثریتی مسلمانوں کے فہم کے بھی خلاف تھے، قرآن کا دعویٰ ہے کہ عیسائی اور یہودی دونوں اس معاملے میں غلط فہمی کا شکار ہیں، نہ وہ مصلوب ہوئے نہ قتل۔ اور اللہ روز قیامت ان کے درمیان فیصلہ کردے گا۔ سورہ النساء آیت نمبر ۱۵۷ک
کم و بیش ایک صدی تک مرزا کے مقلدین ان دو نکات کو اپنے تئیں "مسیح موعود" مرزا غلام احمد کی دریافت اور مرزا کی حقانیت کا الہامی ثبوت ہونے کے دعوے کے طور پر پیش کرتے رہے۔ اور اس دوران دنیا بھر کے علما، محققین، تنظیمیں اور اداروں نے، جو تخصیص کے ساتھ مرزا کے کام پر تحقیق کرتے رہے، مرزا کی ذات ور اس کے دعووں کی سچائی کے رد میں بہت کچھ لکھا، مگر وہ قادیانی عقیدے کے ان دو بنیادی نکات کا کوئی قابل اطمینان رد نہ کر سکے اور بظاہر ایسا لگتا تھا کہ قادیانی یہ بحث جیت رہے ہیں۔ قادیانی تعداد میں اور جغرافیائی طور پر بھی برصغیر ہندو پاک سے آگے تک پھیل رہے تھے۔ مگر یہ سب اچانک بدلنے والا تھا۔
الله ناقابل فہم ذریعوں سے بھی کام لیتا ہے:
ایک صدی تک قادیانی جارحانہ انداز میں کام کرتے رہے۔ اور دنیائے اسلام کے معروف عالم بھی مرزا غلام احمد کے ان بنیادی نکات کے جواب سے معزول نظر آتے تھے۔ لیکن مرزا کے دعوے کے تقریبا ایک سو سال کے بعد کراچی پاکستان کی ایک غیر معروف کاروباری شخصیت جناب الیاس ستار نے، جو کسی بھی مدرسے سے ببقاعدہ طور پر تعلیم یافتہ بھی نہ تھے؛ جن کی عربی اور فارسی زبان کا فہم بھی واجبی سا تھا، حتیٰ کہ وہ اردو بھی ٹھیک سے بول اور لکھ نہیں سکتے تھے، ایک چونکا دینے والی دریافت کی جس نے قادیانی عقیدے کی پہلی بنیاد یعنی "حضرت عیسیٰ کا صلیب پر لعنتی موت سے فرار اور ١٢٠ سال کی عمر میں ان کی سری نگر کشمیر میں طبعی موت" کے دعوے کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا۔
19 اکتوبر ٢٠١١ کو جب میں نے یہ مضمون "حضرت عیسیٰ کی ہندوستان میں دریافت نو" لکھا تو میں الیاس ستار کے نام سے بھی واقف نہیں تھا، کجا یہ کہ ان کی کوئی تحریر پڑھی ہو یا ان کے کام سے کوئی واقفیت ہو۔ میری ان سے پہلی ملاقات ٢٦ مئی ٢٠١٢ کی رات ان کے گھر پر ایک مشترکہ دوست جناب نفیس احمد کے توسط سے ہوئی۔ اس سے قبل اسی سال ٢٠١٢ میں میرا الیاس ستار صاحب سے دو یا تین بار سماجی نشستوں میں آمنا سامنا ہوا، جہاں انھیں تقابل ادیان پر ایک محقق کی حیثییت سے متعارف کروایا گیا، تاہم ہماری کوئی باقاعدہ بات چیت نہیں ہوئی تھی۔
میری جناب الیاس ستار سے پہلی تفصیلی ملاقات ٢٥ اور ٢٦ مئی ٢٠١٢ کی درمیانی شب ان کے گھر پر ہونے والے عشایئے میں جناب نفیس احمد اور انتخاب عالم سوری کی معیت میں ہوئی، جہاں مجھے پہلی بار جناب الیاس ستار جیسے بظاہر معمولی انسان کی اس غیر معمولی دریافت کا احوال سننے کو ملا، جس نے قادیانیت پر ہونے والی بحث کو ایک بلکل نئی جہت بخشی، اسی ملاقات میں مجھے قادیانی مبلغین کے ساتھ جناب الیاس ستار کے مکالموں, قادیانی مبلغین کے جناب الیاس ستار صاحب کو مباہلے کی دعوت، اس مباہلے کو قبول کرنے کے قادیانیوں کے خلیفہ وقت مرزا طاہر کے لندن کے چونتیسویں سالانہ اجلاس منعقدہ جولائی ١٩٩٩ میں اعلان کے احوال پتا چلا۔ جسے دنیا بھر میں قادیانی ٹیلی وژن براہ راست نشر کر رہا تھا۔
اس ملاقات میں میں نے جانا کہ مباہلے کے طے شدہ اصول کے مطابق اس مباہلے کی منظوری کا اشتہار قادیانی مرکز لندن سے جاری ہونے والے جریدے "الفضل" میں ٢٠ اگست ١٩٩٩ کو شایع ہونے کے چند گھنٹوں میں مرزا طاہر کو پر اسرار بیماری لا حق ہو گئی، جس سے اس کی زبان بند ہو گئی، ذہن میں خلا آ گیا اور پھر چار سال کے اندر اندر مرزا طاہر کی موت نے مرزا ا ور اس کے جھوٹے دعوؤں کی حقیقت کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ کیوں کہ مرزا غلام احمد کے اپنے مقرر کردہ معیار کے مطابق "مباہلے کا جو فریق دوسرے کی زندگی میں فوت ہو جائے وہ جھوٹا ہوتا ہے"۔ مرزا طاہر مباہلے کے چار سال کا اندر ٢٠٠٣ میں فوت ہو گیا جبکہ جناب الیاس ستار آج بھی جسم اور روح کی بہترین حالت میں حیات ہیں۔
میری کم علمی دیکھیں کہ میں ٢٥ مئی ٢٠١٢ میں جناب الیاس ستار صاحب سے ان کے گھر پر ملاقات تک ١٩٨٢ میں جناب الیاس ستار کی دریافت، بعد ازاں اُن کے قادیانی مبلغین کے ساتھ مکالموں، مرزا طاہر سے مباہلے اور اس کے انجام سے ناواقف تھا، اور اس پہلی ملاقات کے دوران ہی میں نے جناب الیاس ستار صاحب سے اپنی جستجو اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے ایک نکتے کا ذکر کیا جو قادیانیوں کے عقائد کی دوسری بنیاد یعنی حضرت عیسیٰ کے دمشق کے راستے ایران، عراق ور افغانستان سے ہوتے ہوئے کشمیر تک پہنچنے اور وہاں مدفون ہونے کے دعوے کے الہامی ہونے کا مدلل اور حتمی رد ثابت ہو سکتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جناب الیاس ستار صاحب کی طرح میں بھی عربی، فارسی سے نابلد ہوں اور کسی مدرسے سے کوئی تعلیم حاصل نہیں کی - یعنی میں بھی بقول مرزا طاہر "کراچی کا ایک جاہل، ایرا غیر نتھو خیرا "- (یہ الفاظ مرزا طاہر نے جناب الیاس ستار کے لیے ١٩٩٩ کے سالانہ جلسے میں قادیانی تو پر براہ راست خطاب کرتے ہوئے استمعال کئے تھے) یقینا الله نا قبل فہم اور عجیب و غریب ذرایع سے کام لیتا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے وہ جس سے چاہے جو کام لے لے۔
صلیب پر لعنتی موت اور جناب الیاس ستار کی دریافت:
جناب الیاس ستار کی دریافت نے قادیانیوں کے ١٠٠ سالہ پرانے اس بنیادی عقیدے کو جڑ سے اکھاڑ دیا جس کے مطابق حضرت عیسیٰ گو مصلوب تو ہو گے تھے مگر ان کو صلیب پر لعنتی موت سے بچا لیا گیا اور وہ ١٢٠ سال کی عمر تک سری نگر کشمیر میں زندہ رہے اور پھر طبعی طور پر وفات پائی۔
جناب الیاس ستار کی دریافت سے ثابت ہوا کہ صلیب پر مرنے والے کی موت کے لعنتی ہونے کا تصور پولِس کی ذہنی اختراع ہے ،جس کا کوئی ثبوت نہ یہود کی تورات میں ملتا ہے، نہ عیسائیوں کے عہد نامہ قدیم کی کسی کتاب سے ملتا ہے اور نہ ہی عہد نامہ جدید میں شامل چار متفقہ اناجیل یعنی متی، مرقوقس، لوکس اور یوحنا میں۔ اس لئے مرزا غلام احمد کا یہ دعویٰ کہ حضرت عیسیٰ کو صلیب پر مرنے سے اس لئے بچایا گیا تھا کہ ایسی موت انجیل کے مطابق لعنتی موت ہوتی، بے بنیاد ہے اور کسی صورت الہامی نہیں ہو سکتا کیوں کہ انجیل اور تورات سے لعنتی موت کا تصور ثابت ہی نہیں۔
جناب الیاس ستار نے یہ بھی ثابت کیا کہ قرآن کی رو سے حضرت عیسیٰ مصلوب ہی نہیں ہوئے اور صلیب کا یہ سارا واقعہ یہود اور عیسائیوں کے لیے مشتبہ بنا دیا گیا تھا، اور دراصل یہودا اسکریوتی جس کی شکل اور حلیہ حضرت عیسیٰ سے مشابہت رکھتا تھا کو مصلوب کر دیا گیا۔ جب اس غلطی کا احساس ہوا تو یہودا اسکریوتی کی ڈھونڈ پڑی مگر وہ نہ ملا، تو جلد بازی میں یہودا اسکریوتی کی موت سے متعلق متضاد قصّے گڑھے گئے جن کی نشاندہی جناب الیاس ستار نے کی ہے۔
جناب الیاس ستار نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ مرزا دنیا میں تو کیا ہندوستان میں بھی وہ پہلا شخص نہیں تھا جس نے وفات مسیح کا نظریہ پیش کیا ہو۔
ہندوستان کے معروف ماہر تعلیم اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی جناب سر سید احمد خان ١٨٨٢ میں شایع ہونے والی اپنی تسفیر قرآن کی دوسری جلد میں یہ نظریہ پیش کر چکے تھے، جبکہ مرزا نے پہلی بار یہ بات لگ بھگ ١٨٩١ میں کہی۔
جناب الیاس ستار نے مرزا کے اس الہامی دعوے کا بھی رد کر دیا جس کے مطابق عیسایوں میں شرک کی تخم ریزی حضرت عیسیٰ کی وفات کے بعد ہی ممکن تھی، کیوں کہ بقول مرزا حضرت عیسیٰ ١٢٠ برس کی عمر تک زندہ رہے جب کہ پولس شرک کا بیج بو کر ٦٥ عیسوی میں وفات پا چکا تھا۔
(جناب الیاس ستار اور ان کی دریافت سے متعلق مندرجہ بالا دو ابواب، ۴ جون ۲۰۱۵ کو میرے مضمون میں شامل کئے گئے باقی پورا مضمون 19 اکتوبر 2011 کو تحریر کیا گیا تھا۔
احمد دیدات اور گم گشتہ تاریخی کڑی:
نیروبی میں میرے قیام کا زمانہ اتفاق سے افریقہ سے تعلق رکھنے والے اسلامی دنیا کے ایک انتہائی متعبر اور اپنی نوعیت کے منفرد مقرر و محقق جناب احمد دیدات کے عروج کا زمانہ تھا - احمد دیدات، جن کے آباؤ اجداد کا تعلق بھی بر صغیر پاک و ہند سے تھا، بین المذاہب مکالمے کے ہنر پر حد درجہ عبور رکھتے تھے - آپ نے اپنے زمانے کے تقریبا تمام معروف ایوانجلیکل عیسائی مبلغین کو مناظرے کی دعوت دی، اور یہ ثابت کیا کہ انجیل اپنی موجودہ صورت میں اللہ کا خالص کلام ہر گز نہیں ہے اور القرآن ہی اللہ کا خالص، بنی نوع انسان کے لیے حتمی اور صدیوں سے اپنی اصل صورت میں محفوظ واحد پیغام ہے۔
جناب احمد دیدات کو سننے اور مرزا غلام احمد کی کتاب "مسیح ہندوستان میں" پڑھنے کے بعد مجھے ان دونوں کے استدلال میں بڑی حد تک مماثلت نظر آئی۔ تاہم مرزا کے بر عکس احمد دیدات نے ہمیشہ اپنے دلائل کی بنیاد قرآن اور حدیث پر رکھی، یا پھر تورات، انجیل اور دیگر تاریخی کتب سے حوالے دیئے، احمد دیدات نے کہیں بھی اس بنیادی اصول سے انحراف نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے حضرت عیسیٰ کے ہندوستان تک سفر اور کشمیر میں مدفون ہونے کی کوئی بات نہیں کی۔ تاہم قادیانی احمد دیدات پر مرزا غلام احمد کے کام سے استفادہ کرنے کا الزام لگاتے تھے، اور یہی سبب بنا میری تحقیق کے لیے اس رغبت کا کہ آخر مرزا غلام احمد نے حضرت عیسیٰ کے سفر ہندوستان اور ٨٧ سال تک وہاں زندہ رہنے اور طبعی طور پر وفات کا جو دعویٰ کیا ہے اس کی کیا حقیقت ہے؟
یوں میری جستجو کا آغاز ہوا، مجھے شواہد، تاریخی حوالوں اور منطقی جوابات کی تلاش تھی کہ آخر ١٩٠٠ سال تک حضرت عیسیٰ کی زندگی کا اتنا بڑا حصہ دنیا بھر کے مورخین اور محققین سے پوشیدہ کیوں کر رہ سکتا تھ ، اور کیا ایسا ممکن ہے کہ وہ ٨٧ سال تک کشمیر میں رہے ہوں اور اس خطے میں ان کی تعلیمات کا کوئی نشان بھی نہ پایا جاتا ہو، اور پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنی بڑی تاریخی دریافت کسی ماہر اثار قدیمہ یا محقق کے حصّے میں نہ آئی، بلکہ ایک غیر معروف مذہبی فرقے یا گروہ کے سربراہ نے کی جس کا دعویٰ ہے کہ یہ دریافت الہامی ہے۔
مسیح ہندوستان میں:
میں نے کبھی مرزا غلام احمد یا اس کے عقائد کے بارے میں لکھنے کا سوچا بھی نہیں تھا، لیکن مجھے مسیح موعود اور مہدی آخرالزمان ہونے کے بعد مرزا کے سب سے بڑے اور حیران کن دعوے یعنی حضرت عیسیٰ کے سفر ہندوستان، کشمیر میں ان کے قیام، وفات اور پھر سری نگر کشمیر کے ایک نسبتاً غیر معروف محلے خانیار میں حضرت عیسیٰ کے مدفن کی دریافت نے اس بارے میں تحقیق اور تحریر پر مجبور کیا، مرزا کے اس دعوے نے نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں بلکہ کسی حد تک دنیا بھر کے عیسائیوں کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔
اپنی کتاب "مسیح ہندوستان میں" میں مرزا نے دعویٰ کیا کہ گو حضرت عیسیٰ مصلوب تو ہو گئے تھے تاہم انھیں صلیب پر ملعون موت سے بچا لیا گیا اور وہ دمشق کے راستے عراق، ایران، افغانستان سے ہوتے کشمیر پہنچے ،جہاں ٨٧ برس بعد ١٢٠ سال کی عمر میں وفات پائی اور آج بھی محلہ خانیار سری نگر میں ان کا مقبرہ موجود ہے، جسے مقامی لوگ یز آسپ نبی کے مقبرے کے نام سے جانتے ہیں۔
یز آسپ نبی کے مقبرے کی دریافت بھی تنہا مرزا غلام احمد نے نہیں کی تھی، نہ ہی مرزا نے حضرت عیسیٰ کے مجوزہ راستے میں پڑنے والے کسی ملک کا بہ نفس نفیس دورہ کیا، نہ ہی وہ خود کبھی سری نگر کشمیر گئے، خود مرزا نے ابتداً اِس دریافت کا سہرا ان کے ایک معتمد خاص اور مستقبل کے خلیفہ اول مولوی نورالدین کے سر باندھا۔ مولوی نورالدین نے، جو کہ جلال پور جٹاں، پنجاب کے رہنے والے تھے یہ علاقہ آج پاکستان کی حدود میں آتا ہے، اس مقبرے کا ذکر اپنے مربی مرزا غلام احمد سے کیا جو روضہ بل کے نام سے معروف تھا ، مولوی نے مرزا کو بتایا کہ یہ مقبرہ ایک نبی کا مدفن مانا جاتا ہے جسے مقامی لوگ یز آسپ کے نام سے پکارتے ہیں۔
متجسس مرزا نے مولوی کو اس مقبرے اور وہاں مدفون نبی کے بارے میں مزید معلومات جمع کرنے سری نگر روانہ کر دیا۔ چار ماہ بعد مولوی ٥٥٦ مقامی لوگوں کی دستخط شدہ ایک تحریر کے ساتھ واپس لوٹا جس کے مطابق یہ مقبرہ ایک عظیم پیغمبر یز آسپ یا آصف جاہ نبی کا تھا - پھر مرزا نے اپنے ایک اور ساتھی مولوی عبداللہ کو کشمیر بھیجا تاکہ مزید ثبوت اکٹھے کیے جا سکیں، اور اس کی واپسی پر ١٨۹۱ میں ایک پرچہ شائع کیا جس میں روضہ بل کا خاکہ تھا، اس پرچے میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ مقبرہ دراصل حضرت عیسیٰ کی آخری آرام گاہ تھی، اب یہ ثابت کرنا رہ گیا تھا کے حضرت عیسیٰ کشمیر تک پہنچے کیسے؟
آٹھ سال بعد مرزا غلام احمد کی سب سے مشھور تصنیف "مسیح ہندوستان میں" شایع ہوئی جس میں تفصیل سے بتایا گیا کہ کس طرح حضرت عیسیٰ کو صلیب پر ملعون موت سے نجات دلائی گئی اور وہ فلسطین کو چھوڑ کر بنی اسرائیل کی گم شدہ بھیڑوں یعنی قبائل کی تلاش میں مشرق میں دمشق کی جانب فرار ہوئے، کتاب راستے کے نقشوں ، خاکوں اور تفصیلی دلائل مزین تھی، یہ اس موضوع پر اردو زبان میں شاید اپنی نوعیت کی منفرد کتاب تھی، یہ بات انتہائی حیران کن تھی کہ مرزا غلام احمد نے حضرت عیسیٰ کے سفر شام سے ان کے کشمیر پہنچنے تک کی کڑیوں کو بغیر کسی مستند تاریخی ثبوت کے ملا دیا تھا اور اپنی اس تحقیق کے لیے کسی بھی مآخذ کا حوالہ تک نہیں دیا۔ وہ اسے الہامی دریافت قرار دیتے تھے۔
مسیح کی ہندوستان میں دریافت نو:
مجھے اس بات کا پختہ یقین تھا کہ یا تو مرزا غلام احمد کو کسی قدیم تاریخی تحقیق کے شواہد ملے تھے یا انھوں نے حال ہی میں ہونے والی کسی ایسی تحقیق سے استفادہ کیا تھا جس تک ١٨٩١ میں برصغیر پاک و ہند کے لوگوں کو بالخصوص اور باقی دنیا کے لوگوں کو بالعموم رسائی حاصل نہیں تھی، اسی سال مرزا غلام احمد نے پہلی بار اپنے تئیں "مسیح موعود" اور "مہدی منتظر" ہونے کا دعویٰ بھی کیا اور بعد ازاں ١٨٩٩ میں کتاب "مسیح ہندوستان میں" تصنیف کی۔
یہ بات بھی مجھے کھلتی تھی کہ آخر مرزا کو حضرت عیسیٰ کے سفر ہندوستان اور پھر سری نگر، کشمیر میں مدفون ہونے کے موضوع پر کتاب لکھنے میں آٹھ سال کا طویل عرصہ کیوں لگ گیا جب کہ یہ بات ان کے مسیح اور مہدی کے فلسطین کے بجائے ہندوستان میں ظہور پذیر ہونے کے دعوی کے حق میں سب سے بڑی دلیل ثابت ہو سکتی تھی۔
اس موضوع پر تھوڑی سی تحقیق سے انتہائی دلچسپ حقائق کا انکشاف ہوا ، مثال کے طور پر یہ کہ مغرب کے علمی حلقوں میں یہ بات صدیوں سے زیر بحث تھی کہ عہد نام جدید حضرت عیسیٰ کی زندگی کے ایک بڑے حصے کے بڑے میں مکمل طور پر خاموش تھا، ١٢ سال کی عمر سے ٢٩ سال کی عمر کے درمیانی ١٨ سال کے اس عرصے کو محققین "عیسیٰ کی زندگی کے گم شدہ ١٨ سال" کے نام سے منسوب کرتے ہیں۔
بعض مصنفین مثلا لویس جیکولائٹ اپنی کتاب “لا بائبل دانز لا انڈے, وی دے ئیزیس کرسٹنا" یعنی "انجیل، ہندوستان اور حضرت عیسیٰ کی زندگی" میں دعوی کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کی کہانی دراصل قدیم ہندو مقدس صحائف میں درج دیو مالائی کردار کرشنا سے ماخوذ ہے ، بہت سے دوسرے محققین اور تاریخ دانوں کے مطابق حضرت عیسیٰ نے ان اٹھارہ سالوں میں مشرق کی جانب طویل سفر کیا ، یہاں تک کہ وہ ہندوستان اور اس سے بھی آگے تبت تک پہنچے ، اور بعض تو یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ انھیں ایسے قدیم صحائف ملے ہیں جن سے مسیح کی ہندوستان میں موجودگی ثابت ہوتی ہے۔
نوٹووچ کا حصہ:
ایسا ہی ایک متحیر کن دعویٰ ایک روسی صحافی و مصنف نکولس نوٹووچ نے مرزا غلام احمد کے مسیح موعود ہونے اور "مسیح ہندوستان میں" لکھنے سے کچھ عرصہ پہلے کیا، نوٹووچ اصلا تو یہودی النسل تھا مگر اپنی اوائل عمری میں کٹر (آرتھوڈوکس) عیسائی مذہب اختیار کر چکا تھا۔
نوٹووچ روسی اور یوروپی سیاست پر متعدد کتابوں کا مصنف ہے مگر اس کی اصل وجہ شہرت یہود مخالف "پراودا اوبرویجہ" نامی کتاب ہے ، اپنی عمر کے درمیانی عرصے میں وہ تحقیق کے سلسلے میں ہندوستان کے طویل سفر پر نکلا اور ١٨٨٧ میں امرتسر میں واقع سکھوں کے مقدس مقام "گولڈن ٹیمپل" پہنچا، اس کا دعویٰ ہے کہ وہ مزید شمال کی جانب سفر کرتا ہوا کارگل کے راستے لیہ، لداخ تک پہنچا ، یہ تمام مقامات آج بھارتی مقبوضہ کشمیر میں واقع ہیں۔
نوٹووچ کے مطابق حضرت عیسیٰ بحر عرب کے ساحل پر واقع موجودہ پاکستان کے سندھ صوبے کے علاقوں میں بھی تشریف لائے، اور یہاں سے شمال کی جناب ہمالہ پہاڑوں کے طویل سلسلے سے ہوتے ہوئے، نیپال میں بدھ مت کے بانی گوتم بدھ کی جائے پیدائش تک گئے، نوٹووچ کے مطابق حضرت عیسیٰ نے اس خطے میں کئی سال گزارے اور اس دوران نہ صرف بدھ مت کی تعلیم حاصل کی بلکہ پالی زبان بھی سیکھی اور ٢٩ سال کی عمر میں واپس فلسطین پہنچے جہاں بعد ازاں انھیں یہودیوں کا بادشاہ ہونے کا دعویٰ کرنے پر اس وقت کے رومی گورنر پایلیٹ نے مصلوب کر دیا۔
(حضرت عیسیٰ کے بنی اسرائیل کے بادشاہ ہونے کے دعوے کے متعلق انجیل کا باب ١٢ آیت ١٥ ملاحظہ فرمائیں)
اتفاقات مگر کچھ زیادہ ہی:
نوٹووچ اور مرزا کی حضرت مسیح کی ہندوستان آمد کی کہانی میں اختلاف دو نکات پر ہے ایک تو یہ کہ نوٹووچ حضرت عیسی کے اس سفر اور کشمیر میں قیام کو واقعہ صلیب سے پہلے جب کہ مرزا غلام احمد اُسے حضرت مسیح کے صلیب پر ملعون موت سے بچ نکلنے کے بعد کا واقعہ قرار دیتے ہیں۔ اور دوسرا یہ کہ نوٹووچ کے مطابق حضرت عیسی نے اس دوران بدھ مذہب کی تعلیم حاصل کی اور عیسایت دار اصل بدھ مت کی تعلیمات کا چربہ ہے جب کہ مرزا غلام احمد کے مطابق بدھ مت کے پیروکآروں کو حضرت عیسی نے تعلیم دی، لیکن اس کہانی میں کچھ زیادہ ہی اتفاقات ہیں۔
کیا یہ محض اتفاق ہو سکتا ہے کہ کہ نوٹووچ، جس نے حضرت عیسیٰ کے سفر ہندوستان اور کشمیر میں قیام کے ثبوتوں پر مشتمل صحائف دریافت کیے، ١٨٨٧ میں امرتسر میں موجود تھا جس کا فاصلہ قادیان سے محض ٥٦ کلومیٹر ہے؟
کیا یہ بھی محض ایک اتفاق ہے کہ نوٹووچ ہندوستان کے شہر امرتسر میں جس سال قیام کرتا ہے ، مرزا کا ان دنوں اپنے ذاتی اور کاروباری کاموں سے آئے دن امرتسر آنا جانا لگا رہتا تھا ؟
کیا یہ بھی اتفاق ہے کہ نوٹووچ کو حضرت عیسیٰ کے غیر معمولی سفر ہندوستان کے ثبوتوں پر مشتمل قدیمی صحائف ١٨٨٧ کے لگ بھگ کشمیر میں واقع ایک بدھ مت کی خانقاہ میں دکھائے جاتے ہیں اور اس کے چند سال بعد ہی مرزا حضرت عیسیٰ کی آخری آرام گاہ کشمیر ہی میں تلاش لیتا ہے؟
کیا یہ بھی اتفاق ہے کہ نوٹووچ کی ١٨٨٧ میں امرتسر آمد کے محض چند سال بعد ہی ١٨٩١ میں مرزا غلام احمد "مسیح الزمان" ہونے کا دعویٰ کر دیتا ہے؟
کیا یہ بھی محض اتفاق ہی ہے کہ نوٹووچ کی کتاب "حضرت عیسیٰ کی زندگی کے گم شدہ سال" ١٨٩٤ میں شایع ہوتی ہے اور مرزا کی کتاب اس کے پانچ سال بعد ١٨٩٩ میں منظرعام پر آتی ہے ؟
ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے میں اتفاقات کچھ زیادہ ہی ہیں ، مرزا غلام احمد قادیانی یا تو بہت خوش قسمت یا پھر بہت ہی عیار انسان تھا ، یہ بات قرین قیاس ہے کہ مرزا کی یا تو نوٹووچ سے امرتسر میں ملاقات ہوئی، جہاں مختلف امور کے سبب مرزا کا کثرت سے آنا جانا تھا، جو قادیان سے محض ٥٦ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، جہاں نہ صرف مرزا کی پیدائش ہوئی بلکہ وہ یہیں پلا بڑھا اور اپنی پوری زندگی گزاری، یا پھر مرزا نے نوٹووچ کے تحقیقی کام کے بارے میں سن رکھا تھا۔
اور یہی وہ نکتہ ہے جس سے مرزا غلام احمد کو "مسیح ہندوستان میں" کا خیال سجھائی دیا ، اس کی ۱۸۸۷ میں نوٹوچ سے ملاقات ہوئی یا اس کی تحقیق کے بارے میں آگاہی حاصل ہوئی۔ اس دوران مولوی نورالدین کی معرفت اسے درگاہ حضرت بل کے بارے میں بھی معلومات حاصل ہوئیں، ان معلومات کی بنیاد پر ١٨٩١ میں اس نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کر دیا، ا ور انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ نوٹووچ کی تحقیق ١٨٩٤ میں شائع ہوئی، جسے یقیناً ہندوستان یا مرزا تک پہنچنے میں کچھ عرصہ لگا ہو گا ، اور یہی نکتہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ آخر کیوں مرزا کو اپنے دعوے کے ثبوت میں "مسیح ہندوستان میں" شائع کرنے میں ٩ سال کا عرصہ لگ گیا اور یہ اشاعت بھی نوٹووچ کی کتاب شائع ہونے کے چار سال بعد ہوئی۔
ایسا لگتا ہے کہ اس موضوع پر مرزا غلام احمد کو دیگر مصنفین کے کام تک بھی رسائی حاصل تھی، اور اس طرح مرزا نے حضرت عیسیٰ عالیہ السلام کی دمشق سے کشمیر تک سفر کے مبینہ کہانی کو تھوڑا سا توڑ مروڑ کر پیش کر دیا، اور اپنے ذرائع خفیہ رکھنے کے لئے کسی حوالے کے بجائے اپنی دریافت کے الہامی ہونے کا دعویٰ کردیا۔
گم کردہ راہ بھیڑ جلاوطن نہیں:
مرزا غلام احمد اپنی نام نہاد الہامی دریافت مسیح ہندوستان میں کو ثابت کرنے کے لیے ایک اور دور کی کوڑی لائے ہیں جو مرزا کی اس تصنیف کے بنیادی نکات میں سے ایک ہے اور یہ نکتہ اسرائیل کی گن کردہ بھیڑوں کا نکتہ ہے۔ جس کا تذکرہ انجیل متی میں دو مقامات پر آتا ہے۔
کہ حضرت عیسی علیہ السلام خدا کے پیغام کو پھیلانے کے لئے مختلف علاقوں کی جانب اپنے نمائندے روانہ کرتے ہوئے انہیں مندرجہ ذیل الفاظ میں ہدایات دیتے ہیں:
متی باب 10 آیات ۵ تا ۷ میں مذکور ہے "ان بارہ کو یسوع نے ہدایت کے بعد باہر بھیجا کہ ان جاتیوں کی راہ پر نہ جانا، اور سمارین کے کسی بھی شہر میں داخل نہ ہونا، بلکہ اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جاؤ۔ اور جیسے اگے بڑھتے جاؤ یہ پرچار کرتے جانا کہ آسمان کی بادشاہی قریب آ پہنچی ہے"۔
دوسری جگہ متی باب 15 میں آتا ہے کہ ایک غیر یہودی عورت اپنی بیٹی کے علاج کے لئے ان کے پیچھے پیچھے چلاتی ہوئی دوڑ رہی تھی۔ حضرت عیسی علیہ السلام اس کو نظر انداز کر رہے تھے۔ تو ان کے اپنے ہی شاگردوں نے عرض کیا کہ اپ اس کو جواب کیوں نہیں دیتے وہ مسلسل میں ہم پر چلاتی ہے تو حضرت عیسی علیہ السلام نے جوابا کہا:
انجیل متی 15:24 لیکن اس نے جواب دیا "مجھے صرف اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس بھیجا گیا ہے"
اب ان دو آیات سے مرزا غلام احمد بہت سے مغربی مصنفین کی طرح یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا مشن اسرائیل کے گم کردہ (بے گھر یا جلاوطن پڑھیں) قبائل کو تبلیغ اور تلقین اور ان جلاوطن قبائل کو دوبارہ اسرائیل میں ضم کرنا تھا۔ تاریخی اعتبار سے ان قبائل سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں بابل سے فارسیوں تک یروشلم کے مختلف فاتحین کی طرف سے قید کرکے اپنے ساتھ غلام بنا کر لے جایا گیا تھا، اور جو بعد ازاں مصر، شام، ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا سے دنیا بھر میں بکھر گئے تھے، اور واپس اسرائیل آنے کا راستے کھو دیا تھا۔ اس لئے انہیں واپس لانا حضرت عیسی علیہ السلام کا فرض اولین تھا۔ مرزا نے فقط ان علاقوں کی فہرست میں کشمیر کا اضافہ کر دیا جہاں یہ گم شدہ قبائل پھنس گئے تھے اور یہ نتیجہ نکالا کہ اسی لئے حضرت یسوع نے فلسطین سے کشمیر تک کا تمام تر فاصلہ طے کیا کیوں کہ اُن گم شدہ بھیڑوں کی دریافت اور اُنہیں دوبارہ اسرائیل سے ملانا حضرت یسوع کا فرض منصبی تھا۔
حالانکہ مندرجہ بالا دونوں آیات مندرجہ بالا آیات کے سطحی سے مطالعے سے بھی یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ان آیات میں استعمال کئے گئے لفظ گم کردہ سے مراد گمراہ، گم کردۂ راہ، خطاکار اور غلط کار ہے، نہ کہ منتشر یا قید میں لے لیا گیا اور جلاوطنی میں رہنے پر مجبور کیا گیا۔ "اسرائیل کا گھرانہ" صرف روحانی معنوں میں کھو گیا تھا، اور وہ خدا کی راہ سے بھٹک گئے تھے، اس طرح انہوں نے راہ راست کو کھو دیا تھا، اور یہی وہ اصل وجہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو انہیں دوبارہ صراط مستقیم پر لانے کے لئے اسرائیل کی جانب بھیجا گیا تھا، اور وہ فلسطین ہی میں اسرائیل کی گم کردہ بھیڑیں تلاش کرکے انہیں توحید اور حقانیت کا درس دے رہے تھے۔ بعینہ یہی بات ہے جیسا کہ انجیل مرقوقس 6:34 میں کہا گیا کہ " جب اُس (عیسی علیہ السلام) نے ایک بہت بڑے ہجوم کو دیکھا تو کنارے پر چلا گیا، اور اُس (عیسی ٰ) نے اُن پر ترس کھایا، کیونکہ وہ ایک چرواہے کے بغیر بھیڑوں کی طرح تھے اور انہیں بہت سی باتیں سکھانا شروع کر دیں۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے ان علاقوں کی طرف اپنے رسول روانہ کئے جہاں اسرائیلی مقیم تھے اور انہیں نے غیر اسرایئلی اقوام سے بچنے اور صرف اسرائیلی لوگوں کہ تبلیغ کرنے کی تاکید کی اور جب ایک غیر اسرائیلی عورت نے یسوع سے مدد کی درخواست کی، تو انہوں نے یہ کہہ کر صاف انکار کردیا کہ مجھے صرف گم کردہ راہ بنی اسرائیل کے لئے بھیجا گیا ہے۔ وہ اسرائیلی جنہیں وہ تبلیغ کر رہے تھے اور جن کا معجزاتی علاج کر رہے تھے۔ گم کردہ بھیڑوں سے یقینا ان کی مراد وہ جلاوطن دس قبائل یا لوگ نہیں تھے جو دوسرے خطوں میں پھنسے ہوئےتھے اور واپسی کا راستہ تلاش کرنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ اگر گم کردہ سے حقیقی مراد بے گھر یا جلاوطن اسرائیلی تھے تو پھر کیوں حضرت عیسی علیہ السلام یروشلم اور فلسطین میں تبلیغ کرتے پھر رہے تھے اور کیوں اسرائیل کے بے گھر یا جلاوطن قبائل اور لوگوں کی تلاش میں نہیں نکل نہیں پڑے۔
اخر کس طرح ایک الہامی، مسیح اور مہدیٔ موعود ایک اتنے سادہ سے جملے کی غلط تشریح کر سکتے تھے؟
سیدھا سا جواب ہے مرزا اپنے دعوؤں کے برعکس قطعی الہامی نہیں تھے، وہ تو محض جدید مغربی مصنفین کی نقالی کر رہے تھے، جو اس حقیقت کی پردہ پوشی کے لئے بائبل کی نت نئی توجیہات گڑھ رہے تھے کہ یسوع بنی اسرائیل کے گم کردہ راہ لوگوں کی رہنمائی اور ان کی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اصل تعلیمات کے مطابق اصلاح کے لئے نہیں بلکہ دنیا بھر میں گم شدہ اسرائیلیوں کی تلاش کے لئے بھیجے گئے تھے۔
ایک عیسائی چرچ نے نہایت سادہ اور آسان زبان میں اس کی وضاحت مندرجہ ذیل الفاظ میں کی ہے:
اسرائیل کی غلط تفہیم کی گئی ہے۔ بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ ماضی بعید میں کہیں، اسرائیلی بادشاہت کے دھڑوں میں تقسیم کے کہیں بعد، اسرائیل کے قبائل میں سے دس قبائل کرہ ارض پر بھٹک گئے تھے۔ اور آخری زمانے سے پہلے ان غیر حقیقی قبائل کو یکجا کر کے فلسطین لوٹایا جائے گا جو کہ اسرائیل کے قدیم لوگوں سے وعدہ کی گئی زمین ہے۔ یہ آخری زمانے سے متعلق مفروضوں پر مشتمل ایک اور انتہائی خطرناک اور صریح جھوٹ پر مبنی نظریہ ہے۔
آگے چل کر چرچ بیان کرتا ہے کہ پرانے عہد نامے کے حوالے اسرائیل کے گم شدہ لوگوں کی بحیثیت ایک قوم بحالی اور دور رس تلاش کے لئے غلط استعمال کئے جاتے ہیں۔ گم شدہ قبائل سے متعلق ان انتہائی نادر حوالوں میں سے ایک بھی بائبل سے نہیں بلکہ پرانے عہد نامے میں شامل ان صحائف سے لیا گیا ہے جنہیں ‘اپوکرائفل تصنیفات’ کہا جاتا ہے۔ اگر اپ نے کبھی بائبل کے کیتھولک ایڈیشن کو دیکھا ہو تو آپ نے یقینا ایسی متعدد کتابیں دیکھی ہونگی جینہیں ‘اپوکرائفل کتب’ کہا جاتا ہے۔ ان ہی میں سے ایک صوفیانہ کتاب ‘اسدراس’ ہے۔ اس کے مصنف نے لکھا ہے ‘اور تو نے دیکھا اس نے اپنے پاس ایک اور امن پسند بھیڑ جمع کر لی، یہ وہ دس قبائل ہیں جنہیں اوسیا بادشاہ کے زمانے میں اپنی زمینوں سے قیدی بنا کر لے جایا گیا۔ جنہیں اسیریا کا حکمراں سلمنسار غلام بنا کر لے گیا، جو انہیں دریاؤں کے پار لے گیا اور اس طرح وہ ایک دوسرے ملک میں آگئے۔
حوالہ: ۲ اسدراس باب ۱۳،آیت ۳۹ تا ۴۰
براہ مہربانی یاد رکھیں کہ مندرجہ بالا سطور بائبل سے اقتباس لگتا ہے مگر ہے نہیں۔ اپوکرائفل کتابیں پرانے عہد نامے کا حصہ نہیں ہیں۔ بعد کے کچھ عیسائی چرچز نے خود سے انہیں شامل کر لیا ہے. اور یہی وہ واحد ثبوت ہے جو گمشدہ قبائل کے (بطور جغرافیائی طور پر منتشر ہونے کے ) نظریہ کی کچھ قدرے پشتی بانی کرتا ہے۔ مذکورہ چرچ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس بات کی تصدیق پورے وثوق سے کی جا سکتی ہے کہ کھوئے ہوئے قبیلوں کا ایک قوم کے طور پر کوئی وجود نہ ہے اور نہ کبھی تھا، اس وقت سے جب سے وہ بکھر کر اپنا وجود کھو بیٹھے اور ان کا گم ہونا ان معنوں میں ہے کہ ان کی شناخت ختم ہو گئی اور ان کا ایک قوم کے طور پر وجود ختم ہو گیا۔
تو ہم بھی پورے اعتماد سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اسرائیل کی گم کردہ بھیڑوں کا تصور بمعنی گم شدہ یا جلاوطن اسرائیلی قبائل نہ صرف مرزا غلام احمد کی " مسیح ہیندوستان میں " کے لئے ایک بنیادی نکتہ ہے، بلکہ اسرائیل کی جدید صہیونی نسل پرست ریاست کی بھی بنیاد ہے اور صیہونی اور ایوانجلیکل عیسائیوں کے آخری زمانے سے متعلق مفروضوں پر مبنی نظریات کی بھی۔ اور چونکہ گم کردہ کی یہ توضیح نہ نئے اور نہ ہی پرانے عہد نامے کا حصہ ہے اس لئے یہ ایک صریحاٌ باطل نظریہ ہے نہ کہ الہامی۔
خلاصہ کلام
مرزا غلام احمد کا بنیادی دعویٰ تھا کہ
۱۔ صلیبی موت لعنتی موت تھی اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو لعنتی موت سے بچانے کے لیے صلیب پر بے ہوش کردیا ۔ تاکہ یہودی سمجھیں کہ وہ فوت ہو گئے اور اس طرح وہ صلیبی موت سے بچ گئے۔ اور حضرت عیسیٰ کی وفات کے بعد عیسائی مذہب میں شرک کی تخم ریزی ہوئی۔ یعنی موت پہلے ہوئی اور شرک کی تخم ریزی بعد میں ہوئی ۔ چونکہ شرک ہورہا تھا اور موت کے بعد ہونا تھا، اس لیے مرزا نے اخذ کیا کہ موت ہو چکی ہے۔
۲۔ حضرت عیسیٰ کے فلسطین سے براستہ دمشق، سری نگر تک سفر خانیار میں مزار کی دریافت الہامی تھی ۔ جس کی بنیاد حضرت عیسی کے صلیب سے زندہ بچ نکلنے کے بعد اناجیل میں مذکور گم کردہ اسرائیلی قبائل کی تلاش پر تھی۔
پہلا نکتہ جناب الیاس ستار صاحب کی تحقیق کے ذریعے حتمی طور پر غلط ثابت ہو چکا ہے ۔ کیونکہ صلیب پر لعنتی موت کا تصور ہی جھوٹ پر مبنی ہے اور عیسائیوں میں شرک کی تخم ریزی ٦٥ عیسوی سے قبل ہی ہو چکی تھی، جبکہ مرزا کے بقول حضرت عیسیٰ ١٢٠ تک زندہ رہے - لہٰذا مرزا کا یہ دعویٰ الہامی ہو ہی نہیں سکتا۔
جبکہ دوسرا نکتہ اس مضمون کے ذریعے غلط ثابت ہوا کہ یہ ساری کی ساری کہانی نوٹووچ جیسے مغربی مصنفین سے مستعار لی گئی ہے۔
جبکہ خانیار میں قبر کی دریافت مولوی نورالدین کی اختراع تھی نہ کہ مرزا کی، اور جن گم شدہ بھیڑوں کی تلاش میں مرزا صاحب مسیح کو ہندوستان لائے ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا، نہ ایسا کرنا حضرت عیسی کے فرائض میں شامل تھا اور نہ ہی گم کردہ کی تشریح جلاوطن کرنا قران، اناجیل اور تاریخی حوالوں سے ثابت ہوتا ہے، لہٰذا یہ باتیں بھی قطعاً الہامی نہیں تھیں۔
ما علینا الا البلاغ المبینو
آپ کا تبصرہ ہمارے لئے اہمیت رکھتا ہے۔