اتمام حجت: توفی کے ایک ہی نکتے سے یہود، عیسائیوں اور قادیانیوں کا مدلل رد
تحقیق و تحریر : الیاس ستار / محمد طارق خان
عیسائیوں کے تبلیغی رسالے " روح اللہ " کے جواب میں چند سال قبل میں (الیاس ستار) نے اہم نکات کے جوابات پر مشتمل ایک کتابچہ شائع کیا جس میں سے ایک نکتہ قرآن میں لفظ " توفی " کے استعمال سے متعلق تھا۔ اس رسالے "روح اللہ " میں قرآن کی سورہ آل عمرآن کی آیت نمبر 55 کا حوالہ دیا گیا ہے۔ آیت 55 میں ہے
ترجمہ: جب اس (اللہ) نے کہا: اے عیسٰی میں تجھے لے لوں گا اور اپنی طرف اٹھا لوں گا اور جنہوں نے تیرا انکار کیا ،ان سے تجھے پاک کر دوں گا، اور تیری پیروی کرنے والوں کو قیامت تک ان پر بالادست کردوں گا ،جنہوں نے تیرا انکار کیا، پھر میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے، تب میں ان باتوں کا فیصلہ کر دوں گا جن میں تم اختلاف کرتے ہو ۔
اس حوالے سے رسالہ " روح اللہ " کے صفحہ 35 پر درج ھے کہ:
" انہوں نے لفظ " متوفیک " پڑھا ہے یہ لفظ توفہ سے نکالا ہے ۔ اس کے معنی " مر جانا " یا " مار ڈالنا " کے ہیں ۔ دو بار اس کا ترجمہ " سو جانا " ہوا ہے ۔ قرآن حکیم میں یہ لفظ 26 مرتبہ استعمال ہوا ہے، 24 مرتبہ اس کا ترجہ " مر جانا " یا " مار ڈالنا " ہوا ہے ۔ "
یہی اعتراض قادیانی حضرآت بھی کرتے ہیں قادیانی مذہب جس کے بانی مرزا غلام احمد ھیں، ان کا کہنا ہے کہ اس آیت میں " توفیک " موت، مر جانے یا مار ڈالنے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے پس حضرت عیسٰی علیہ السلام وفات پا چکے ہیں نہ کہ اٹھا لئے گئے جیسا کہ بعد میں آنے والے لفظ "رافعک الی " یعنی " اپنی طرف اٹھا لیا " سے صاف ظاہر ہوتا ہے ۔ اور یہ کہ " رافعک " سے مراد ذکر بلند کرنا ہے ۔
اپنے اس دعوٰی کے ثبوت کے طور پر وہ قرآن کی دو آیات سے دلیل دیتے ہیں ایک سورہ آل عمرآن کی آیت 144 اور دوسرا سورہ الشرح کی آیت نمبر 4
سورہ آل عمرآن کی ایت 144 میں درج ہے :
ترجمہ: اور محمد تو ایک رسول ہیں، ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے، تو کیا اگر وہ انتقال فرما جائیں یا قتل ہو جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے۔ اور جو پھر جائے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا، اور اللہ عنقریب شکر کرنے والوں کہ اجر دے گا۔
مرزا غلام احمد کی جماعت اس آیت کے ترجہ میں علمی بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ محمدﷺ سے بہلے بھی گزرے رسولوں کے ساتھ لفظ " تمام " یا " جتنے " کا اضافہ کر دیتی ہے، اور یہی نہیں لفظ "خلت " یعنی گزرے کا ترجمہ مر گئے کرتے ہیں۔ جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ محمدﷺ سے پہلے جتنے بھی رسول گذرے سب وفات پا چکے ہیں جبکہ یہ آیت محض اس بات پر دلیل ھے کہ محمدﷺ سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں- اور بعینہ یہی قرآن کی سورۃ المائدہ کی آیت 75 میں خود حضرت مسیح کے بارے میں درج ہے:
ترجمہ: مسیح ابن مریم تو ایک رسول تھے، ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے تھے، ان کی ماں ایک راست باز عورت تھی، اور وہ دونوں کھانا کھاتے تھے، دیکھو ہم کس طرح ان کے لئے نشانیاں واضح کرتے ہیں، پھر دیکھو یہ کدھر پھرے جاتے ہیں۔
اور یہاں بھی گزرے رسولوں کا تذکرہ ان معنوں میں نہیں ہوا کہ وہ مر چکے ہیں، بلکہ بتانا یہ مقصود ہے کہ حضرت مسیح بھی دوسرے رسولوں کی طرح ایک رسول ہیں اور وہ اور ان کی والدہ، جو کہ ایک راست باز خاتون تھیں، دونوں کھانا کھاتے یعنی دونوں ہی بشر تھے ۔
مندرجہ بالا دونوں مقامات پر گزرے رسولوں کے تذکرے سے نہ تو ان سب کی طبعی موت ثابت کرنا مطلوب ہے اور نہ ہی ان آیات میں رسولوں کے ساتھ "سب، تمام، جملہ، کل" وغیرہ کے الفاظ کا استعمال ہوا ہے۔ اس کی مثال یوں ہے جیسے کہا جائےکہ فلاں ملک میں فلاں بن فلاں سے پہلے بھی وزائے اعظم گزرے ہیں، اس سے یہ مطلب نکالنا کہ وہ سب کے سب مر بھی چکے ہیں کسی صورت درست ترجمانی نہ ہو گی۔
مزید یہ قرآن میں " خلت " کا لفظ درجن بھر مقامات پر استعمال ھوا ہے، مثلا سورۃ آلرعد آیت 6 اور 30، سورۃ الحجر آیت 13، سورۃ مومن (غافر) آیت 85، سورۃ حٰم السجدہ آیت 25، سورۃ الاحقاف آیت 17، 18 اور 21 اور سورۃ الفتح آیت 23۔ ان سب مقامات پر گزرے رسولوں، قوموں، گروہوں، واقعات اور اللہ کی سنت کا ذکر ہے، ہر جگہ ترجمہ " گزرے، گزری یا گزرا" ہی کیا گیا ہے، کہیں بھی اس کا ترجمہ موت نہیں اور نہ ہی موت پر دلیل ہے، بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ ایسا پہلے بھی ہو چکا۔
اب آئے سورہ الشرح کی آیت 4 پر جس کو قادیانی حضرآت سورۃ آل عمرآن کی آیت 55 میں " رافعک الی " کے معنوں کو ذکر کی بلندی کے لئے دلیل کے طور پر استعمال کرتے ہیں وہ یوں ہے :
ترجمہ: اور ہم نے (اے محمد) تمہارا ذکر بلند کر دیا۔
اب اس ایت پر بھی اگر غور کیا جاۓ تو بات واضح ہے کہ یہاں " رفعنا " کے بعد " ذکرک " کا لفظ ھے یعنی بلندی یا اٹھایا جانا ، ذکر کا ہے۔ جبکہ سورہ آل عمرآن کی آیت نمبر55 میں " رافعک " کے بعد " الی " کا لفظ آیا ہے جس کے معنٰی بنتے ہیں کہ" اپنی طرف اٹھالیا " لہذا یہ ثابت ہوا کہ ہر جگہ رفع کے معنٰی ذکر کی بلندی نہیں ، بلکہ رفع کے بعد جس چیز کا ذکر ہوگا اس پر منحصر ہے ۔ لفظ رفع تو محض ایک عمل ہے جس کے معنٰی اٹھائے جانے یا بلند کئے جانے کے ہیں ۔
بعینہ یہی کلیہ لفظ " توفی " کے لئے بھی ہے – توفی کے معنٰی " قبض کرنے، واپس لینے، قابو میں کرنے" کےہیں نہ کہ محض مار ڈالنے کے۔ اسی لئے جہاں سورہ الانعام ایت نمبر 60 میں توفی کے بعد لیل یعنٰی رات کا لفظ آیا ہے وہاں اس سے نیند مراد لیا جاتا ہے۔
ترجمہ: اور وہی (اللہ) ہے جو رات کو تمہاری ( روح ) قبض کر لیتا ہے، اور جانتا ہے کہ دن میں کچھ کماؤ گے تو پھر تمہیں اٹھاتا ہے کہ ٹھہرائی ہوئی مدت پوری ہو۔ پھر اسی کی طرف تمہیں لوٹ کر آنا ہے، پھر وہ بتا دے گا جو کچھ تم کرتے تھے۔
یہاں توفی کو نیند کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ اسی طرح حضرت عیسٰی کے بارے میں جب توفی کا لفظ استعمال ہوا ، تو سے موت ہی مراد کیوں لی جائے؟ جبکہ سیاق و سباق اس بات پر دلیل ہیں کہ طبعی موت مراد نہیں۔ جیسا کہ سورہ النسا ء کی آیت 157 میں ہے ۔
ترجمہ: اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے مسیح عیسٰی ابن مریم رسول اللہ کو قتل کردیا، نہ تو انہیں قتل کیا، نہ ہی مصلوب کیا ، بلکہ معاملہ ان کے لئے مشتبہ کر دیا گیا، اور جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا، وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں، ان کے پاس اس بارے میں کوئی (حتمی) علم نہیں، محض گمان کی پیروی کر رہے ہیں، انہوں نے مسیح کو یقینا قتل نہیں کیا۔
اس آیت میں دو باتیں صراحت کے ساتھ بتائی گئی ہیں ایک تو یہ کہ یہودی نہ تو حضرت عیسٰی کو قتل کر سکے اور نہ ہی مصلوب (چاہے بعد میں زندہ ہی اتار لیا گیا ہو)۔ یوں یہ ایک ہی آیت نہ صرف یہود کے دعوٰی کو رد کرتی ہے، بلکہ مسیحیوں کی غلط فہمی اور مرزا غلام احمد کے اس دعوٰی کی بھی تردید کرتی ہے کہ حضرت مسیح گو کہ صلیب پر مرے تو نہیں تھے مگر مصلوب ضرور ہو گئے تھے۔ جبکہ آیت نہایت واضح طور پر بتاتی ہے کہ نہ قتل ہوئے، اور نہ ہی مصلوب، دونوں کے بارے میں کہا کہ ایسا نہیں ہوا۔
اور اس سے اگلی آیت رفع کے معنوں کو بھی کھول کر بیان کر دیتی ہے اور تمام شکوک شبہات کا ازالہ کرتی ہے۔ سورۃ النساء آیت نمبر 158 ملاحظہ فرمائیں :
ترجمہ: بلکہ ان کو اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا، اور اللہ زبردست طاقت اور حکمت والا ہے۔
اب اس سے بڑھ کر کیا بات ہو سکتی ہے آیت 157 کے مطابق یہود حضرت عیسٰی کو نہ تو جسمانی طور پر قتل کر سکے، نہ مصلوب بلکہ معاملہ ان کے لئے مشتبہ بنا دیا گیا، وہ علم نہیں رکھتے قیاس آرائیاں کرتے ہیں، اور سچ تو یہ ہے کہ حضرت عیسٰی کو " اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا " اور پھر بھی کوئی شک کرے تو جان لے کہ " اللہ زبردست طاقت اور حکمت والا ہے" یعنی وہ جو چاہے کرسکتا ہے، چاہے تو حضرت عیسٰی کو اپنی طرف اٹھا لے، اس میں کسی کو اعتراض بھلا کیوں کر ہو؟ ۔
اب اس پس منظر میں اس سورۃ آل عمرآن کی آیت 55 کو پڑھیں جس میں اللہ نے حضرت عیسٰی کے لئے توفیک کے الفاظ استعمال کئے، اور "توفیک " کے فورا بعد "رافعک الی " کے الفاظ استعمال کئے یعنی "اپنی طرف اٹھا لیا " تو بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ یہاں اٹھایا جانا ذکر کی بلندی کے معنوں میں نہیں اور نہ ہی توفی موت کے معنوں میں ہے بلکہ توفی کے معنی واپس بلا لینے (ریکال کرنے) کے ہیں جیسا کہ مولانا سید ابوالاعلٰی مودودی نے "تفہیم القرآن " میں ترجمانی کی ہے۔
مزید برآں اس آیت میں حضرت عیسٰی کا انکار کرنے والوں سے پاک کرنے کا جو ذکر ہے وہ بھی اس بات پر دلیل ہے کہ انہیں واپس طلب کر لیا گیا، ورنہ موت کے بعد پاک کرنے کا کیا مقصد ؟ اس بات کی وضاحت سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 117 میں حضرت عیسٰی کی زبان سے کچھ اس طرح کی گئی ہے:
ترجمہ : میں (عیسٰی) نے ان سے اس کے سوا کچھ نہیں کہا، جس کا آپ (اللہ) نے حکم دیا تھا، یہ کہ اللہ کی بندگی کرو، جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی، میں تو اسی وقت تک ان پر نگراں تھا، جب تک ان کے درمیان تھا، پھر آپ نے مجھے واپس بلا لیا، تو آپ (اللہ) ان پر نگراں تھے، اور آپ تو ہر چیز پر ہی گواہ ہیں۔
یہ آیت صریح دلالت کرتی ہے کہ حضرت عیسٰی جب تک اپنی قوم میں موجود رہے، انہیں توحید کا درس دیتے رہے۔ یہاں حضرت عیسٰی نے خود بھی اپنے لئے "جب تک زندہ رہا " نہیں کہا، بلکہ "جب تک موجود رہا " کہا ہے، جس سے اگلے ہی جملے میں توفی کے معنی موت نہیں بلکہ ان کے درمیان سے ہٹا دیئے جانے، واپس بلا لئے جانے یا کہیں اور منتقل کردیئےجانے کے ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ اردو زبان میں انتقال کرجانے کو عام طور پر تو مر جانے کے معنی میں لیا جاتا ہے، مگر اس کا استعمال موقع محل کے لحاظ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ تبادلے یا ایک سے دوسرے کو یا دوسرے کے نام منتقل (ٹرانسفر ) کرنے کے بھی ہوتے ہیں – مثال کے طور پر زمینوں یا جائیداد کا انتقال یا انتقال اقتدار وغیرہ ۔
اس لیے قرآن میں استعمال ہونے والے الفاظ کی درست ترجمانی کے لئے ضروری ہے کہ ان کے استعمال کے موقع محل کو ملحوظ خاطر رکھا جائے نہ کہ صرف اس دلیل پر اکتفا کیا جائے کہ کسی اور جگہ اسی لفظ کا استعمال کن معنوں میں اور کتنی بارہوا ہے ۔
اسی بحث میں قادیانی حضرات یہ اعتراض بھی اٹھاتے ہیں کہ آخر حضرت عیسٰی ہی کو اٹھا لئےجانے کی انفرادیت کیوں ؟ اور حضرت عیسٰی ہی کو قرآن میں بیان کردہ موت کے عمومی کلیئے سے استثنٰی کیوں حاصل ہے ؟ جس کا ذکر قرآن کی سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 35 میں اس طرح کیا گیا :
ترجمہ: ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے، اور ہم اچھے اور برے کی آزمائش میں ڈال کر تمہاری جانچ کرتے ہیں، اور ہماری ہی طرف ( تمہیں ) لوٹ کر آنا ہے۔
تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ ایسا بلکل نہیں ہے۔ نہ تو حضرت عیسٰی اٹھائے جانے کے معاملے میں منفرد ہیں اور نہ ہی موت سے استثنٰی کے معاملے میں۔ دیکھئے قرآن کی سورۃ مریم، جی ہاں سورۃ مریم یعنی حضرت عیسٰی کی والدہ محترمہ کے نام سے منسوب سورۃ ہی کی آیت 56 اور 57:
ترجمہ: اور کتاب میں ذکر کرو ادریس کا – بلا شبہ وہ ایک سچے نبی تھے – اور ہم نے اسے بلند مقام پر اٹھا لیا ۔
غور سے پڑھیں سورۃ مریم ہی میں زور دے کر حضرت ادریس کا ذکر کتاب (قرآن) میں کرنے کو کہا، پھر ان کے سچے اور نبی ہونے کی تصدیق کی اور کہا کہ ہم نے انہیں ایک بلند مکان پر اٹھا لیا۔ گو کہ حضرت ادریس کے بارے میں قرآن میں ایک دو جگہ ہی ذکر ہے، اور ان کے حالات و واقعات کی تفصیل بھی نہیں ملتی مگر اکثر مفسرین کی رائے میں آپ آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے اور حضرت نوح سے پہلے گذرے ہیں ۔ بعض مفسرین حضرت ادریس کو عہد نامہ قدیم کی پہلی کتاب میں مذکور حنوک قرار دیتے ہیں ، جن کے بارے میں کتاب پیدایؑش کے باب 5 آیت 21 تا 24 میں درج ہے:
"حنوک کی عمر جب 65 سال ہوئی تو اس کے ہاں متوسلح ( پہلا بیٹا) پیدا ہوا، حنوک متوسلح کی پیدائش کے 300 سال بعد تک خدا کے ساتھ چلتا رہا، اس کے (مزید) بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئیں، اور وہ خدا کے ساتھ چلتا رہا اور غائب ہو گیا، خدا نے اسے اٹھا لیا (یا لے لیا) "
یہود اورعیسائیوں کا حنوک کے بارے میں مشترکہ عقیدہ یے کہ انہیں طبعی موت نہیں ہوئی، اب چاہے حنوک ہی حضرت ادریس ہوں، یا کوئی اور، بائبل اور قرآن دونوں سے ثابت ہوا کہ زندہ اٹھا لئے جانے کے معاملے میں حضرت عیسٰی منفرد ہر گز نہیں۔
اسی طرح تورات کی کتاب " سلاطین جلد دوم" باب دوم کی دو مختلف آیات میں لکھا ہے:
"اور عنقریب تھا کہ اللہ الیاس کو ہوا کےایک بھنور میں آسمان پر اٹھا لیتا" (آیت نمبر 1)
"اور پھر یوں ہوا کہ جب وہ دونوں باتیں کرتے چلتے جا رہے تھے، آگ کا بنا ایک رتھ جس کے گھوڑے بھی آگ کے تھے، نمودار ہوا، اور ان دونوں کو جدا کر دیا، اور الیاس ہوا کے ایک بھنور کے ذریعے اوپر آسمان پر چلا گیا"۔ ( آیت نمبر11 )
تو یوں بائبل سے (جس پر مرزا غلام احمد قادیانی کو بہت دعوٰی ہے) ایک نہیں دو انبیاء کا زندہ آسمان پر اٹھایا جانا ثابت ہوا-
اب رہی بات حضرت عیسٰی کی اس انفرادیت کی کہ صرف انہی کو طبعی موت سے استثنٰی کیوں ؟ تو پہلی بات یہ کہ انہیں بھی استثناء حاصل نہیں، ان کی کیفیت کم وبیش ویسی ہی ہے جیسے قرآن میں مذکور اصحاب کہف اور حضرت عزیر کی ہے، اصحاب کہف ایک غار میں 309 سال تک سوتے رہے اور پھر باہر آگئے، جبکہ حضرت عزیر تو طبعی طور پر 100 سال تک مردہ رہے اور پھر زندہ ہو گئے اور پھر اپنی عمر پوری کرکے وفات پائی۔ اسی طرح حضرت عیسٰی اس غیر حاضری کی کیفیت سے باہر آ کر اپنی طبعی عمر پوری کریں گے اور بلآخر موت کا ذائقہ چکھیں گے۔ اب چاہے یہ غیر حاضری 100 سال کی ھو، 309 سال کی یا کئی ہزار سال کی، اللہ کے لئے ناممکن نہیں، وہ زبردست طاقت اور حکمت والا ہے۔
جیسا کہ سورۃ الزمر آیت نمبر 68 میں مذکور ہے:
اور جب صور پھونکا جائے گا، تو سب بےہوش ہو جائیں گے جو بھی آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین پر ہیں، ما سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہے۔ پھر ایک اور صور پھونکا جائے گا، تو سب کھڑے ہو کر دیکھنے لگیں گے ۔
یہاں بعض مترجمین نے صعق کا ترجمہ "مر جائیں گے" بھی کیا ہے، اب چاہے سب بےہوش ہو جائیں یا مر جائیں اور چاہے یہ بےہوشی موت ہی کے مترادف یا مصداق ہو، جسے اللُہ چاہے گا وہ بچ جائےگا۔ پس ثابت ہوا کہ صور پھونکنے سے بھی ہرچیز نہیں مر ےگی، بلکہ اس روز بھی اللہ جس کو چاہے گا، وہ بچ جائیں گے ۔
پس ثابت ہوا کہ " کل نفس ذائقتہ الموت" کا کلیؑہ عمومی ہے، اور اس سے حضرت عیسٰی کو بھی قطعی طور استثنٰا ء حاصل نہیں، اور نہ ہی طویل مدت تک دنیا سے غائب رہ کر دوبارہ ظہور کے معاملے میں انہیں کوئی انفرادیت حاصل ہے ۔
یہ مضمون یہود، عیسائی اور قادیانیوں کے لئے یکساں مفید اور وفات مسیح کے مسئلے پر اتمام حجت ہے، اگر پھر بھی کسی کو شک ہو تو وہ سورۃ البقرۃ کی یہ آیت پڑھ لے :
ترجمہ: اور یہود کہتے ہیں عیسائیوں کے پاس کچھ نہیں، اور عیسائی کہتے ہیں یہود کے پاس کچھ نہیں، حالانکہ دونوں (ایک) ہی کتاب پڑھتے ہیں، اور اس طرح کی بات وہ لوگ بھی کرتے ہیں، جن کے پاس کوئی علم نہیں، یہ اختلافات جن میں یہ لوگ مبتلا ہیں ان کا فیصلہ اللہ قیامت کے دن کر دے گا ۔
یہ آیت ایک ہی کتاب یعنی تورات پر ایمان رکھنے والے یہود اور عیسائیوں کے مابین اختلاف کا ذکر کرتے ہوئے ایک تیسرے گروہ کی نشاندہی کرتی ہے، جو اس اختلافی مسئلے میں دعوٰی کرتا ہے، حالانکہ انہیں اس کا کویؑ علم ہی نہیں، اور اللہ تعٰالی نہایت وضاحت سے فرماتے ہیں کہ اللہ ان اختلافات کا فیصلہ قیامت کے روز خود کر دیں گے –
اس لئے قادیانی دوستوں سے گزارش ہے کہ اختلاف برائے اختلاف ترک کر کے نصیحت پکڑنی چاہئے، کیوں کہ قیامت کے دن توبہ ہر گز قبول نہیں ہو گی اورمحض پچھتاوا ہو گا۔
آپ کا تبصرہ ہمارے لئے اہمیت رکھتا ہے۔