پاکستان بنگلہ دیش تقابلی جائزہ
19 مئی 2023
محمد طارق خان
سوشل میڈیا پر گزشتہ کچھ عرصے سے مایوسی کا شکار ایک خاص حلقہ پاکستان، پاکستانی معیشت، اداروں اور مستقبل کے حوالے سے انتہائی گمراہ کن خبریں پھیلا رہا ہے، انہی خبروں میں ایک پاکسثان اور بنگلہ دیش کے درمیان تقابل بھی ہے، جس میں بنگلہ دیش کو ترقی کے ایک ماڈل کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، کافی عرصے سے ایسے دعوے کئے جارہے ہیں جیسا کہ بنگلہ دیش میں بلٹ ٹرین کا اجراء، حاجیوں کے لئے کثیر المنزلہ بحری جہازوں کی تعمیر اور لاکھوں حجاج کو لے کر حرمین شریفین روانگی وغیرہ، اس طرح کے مضحکہ خیز اور بے بنیاد دعوؤں نے اس بات کی تحریک دلائی کہ دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبہ ہائے زندگی کا ایک مختصر مگر جامع اور مصدقہ اعداد و شمار پر مبنی تقابلی جائزہ پیش کیا جائے جس کا مآخذ عالمی بینک، آئی ایم ایف، اقوام متحدہ اور محکمہ شماریات جیسے مستند ادارے ہوں، جو نہ تو ہمارے چاچے اور نہ بنگلہ دیش کے مامے لگتے ہیں۔ البتہ اعداد و شمار میں مآخذ اور طریقہ کار کے فرق کی وجہ سے کچھ اختلاف ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی کل ابادی کم و بیش 23 کروڑ جبکہ بنگلہ دیش کی 17 کروڑ ہے، پاکستان کا کل رقبہ تقریباً آٹھ لاکھ مربع میل جبکہ بنگلہ دیش کا کل رقبہ ایک لاکھ پچاس ہزار مربع کلومیٹر سے کچھ کم ہے۔ آبادی اور رقبہ دونوں لحاظ سے پاکستان بڑا ملک ہے مگر بنگلہ دیش دنیا کا سب سے گنجان آباد ملک سمجھا جاتا ہے جہاں ہر مربع کلو میٹر پر ایک ہزار ایک سو ستاون لوگ رہتے ہیں جبکہ پاکستان میں یہ تناسب دو سو اکیانوے ہے۔ پاکستان میں ابادی میں اضافہ کا تناسب ایک اعشاریہ آٹھ جبکہ بنگلہ دیش میں ایک اعشاریہ ایک ہے۔
معیشت کی بات کی جائے تو اس شعبے میں بنگلہ دیش نے گزشتہ چند سالوں میں کافی ترقی کی ہے، پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار تقریباً 348 ارب امریکی ڈالر ہے جبکہ بنگلہ دیش کی جی ڈی پی تقریباً 416 ارب امریکی ڈالر ہے۔
پاکستان کی فی کس آمدنی امریکی ڈالر 1,505 جبکہ بنگلہ دیش کی 2,458 امریکی ڈالر ہے۔
پاکستان کا جی ڈی پی سے غیر ملکی قرضوں کا تناسب تقریباً 32.98 فیصد ہے جبکہ بنگلہ دیش کا مجموعی قومی پیداوار سے بیرونی قرضوں کا تناسب تقریباً 22.71 فی صد ہے۔
پاکستان کا کل بیرونی قرضہ 115 ارب امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہے جبکہ بنگلہ دیش کا کل بیرونی قرضہ تقریباً 94.5 بلین امریکی ڈالر ہے۔
پاکستان کی کل برآمدات 35 بلین امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہیں جبکہ اس کی درآمدات 78 ارب امریکی ڈالر ہیں جبکہ بنگلہ دیش کی برآمدات 48.76 ارب امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہیں جبکہ اس کی درآمدات 85 ارب امریکی ڈالر ہیں۔
پاکستان میں غربت کی شرح تقریباً 25.6 فیصد ہے، اور بے روزگاری کی شرح تقریباً 4.5 فیصد ہے. اس کے مقابلے میں بنگلہ میں غربت کی شرح تقریباً 21.6، اور بے روزگاری کی شرح تقریباً 4.4 فی صد ہے۔
اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کی طرف سے شائع کردہ ڈیموکریسی انڈیکس میں پاکستان 167 ممالک میں 105 ویں نمبر پر ہے۔ اس کا سکور 10 میں سے 4.00 ہے، اسے "ہائبرڈ حکومت" کا درجہ دیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش کی صورت حال بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں وہ 167 ممالک میں سے 76 ویں نمبر پر ہے، 10 میں سے اس کا اسکور 5.88 ہے، اسے "ڈھونگ جمہوریت" کے درجہ پر رکھا گیا ہے۔
رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کے شائع کردہ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان 180 ممالک میں 145 ویں نمبر پر ہے۔ اس کا اسکور 45.75 ہے، جبکہ بنگلہ دیش 180 ممالک میں 152 ویں نمبر پر ہے، جس کا اسکور 48.40 ہے، یعنی دونوں ہی ممالک آزادی صحافت کے لیے "مشکل صورتحال" کے درجے میں ہیں۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی طرف سے شائع کردہ انسانی ترقی کے انڈیکس میں پاکستان 189 ممالک میں 154 ویں نمبر پر ہے۔ اس کی ایچ ڈی آئی ویلیو 0.557 ہے، بنگلہ دیش 189 ممالک میں 133 ویں نمبر پر ہے، جس کی ایچ ڈی آئی ویلیو 0.632 ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک نے "انسانی ترقی کے معاملے میں درمیانی درجہ" پر ہیں۔
قانون کی حکمرانی کے انڈیکس میں پاکستان 139 ممالک میں 120 جبکہ بنگلہ دیش 115 ویں نمبر پر ہے۔
ورلڈ جسٹس پروجیکٹ رُول آف لاء انڈیکس میں پاکستان کا سکور 1.00 میں سے 0.44 ہے، بنگلہ دیش کا سکور بھی 1.00 میں سے محض 0.46 ہے، یعنی دونوں ممالک انصاف اور قانون کی حکمرانی کے معاملے میں کم ترین سطح کے درجہ پر ہیں۔
شعبہ تعلیم کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 192 یونیورسٹیاں، 11,996 کالجز، 52,131 سیکنڈری اسکول، اور 213,008 پرائمری اسکول ہیں۔ اس کے مقابلے میں، بنگلہ دیش میں 136 یونیورسٹیاں، 1,564 کالج، 22,685 سیکنڈری اور 115,276 پرائمری اسکول ہیں۔
پاکستان میں ثانوی اور اعلی تعلیمی اداروں میں اندارج شدہ طلبہ کی تعداد 4,874,841 جبکہ بنگلہ دیش میں میں 3,204,034 طالب علم ثانوی اور اعلٰی تعلیمی اداروں میں مندرج ہیں۔ بنگلہ دیش میں پاکستان کے مقابلے میں اساتذہ کی تعداد بھی کم ہے، پاکستان کے 1,790,927 کے مقابلے میں بنگلہ دیش میں 1,309,787 اساتذہ ہیں۔
بنگلہ دیش میں 596 کے مقابلے پاکستان میں 50 بستروں یا اس سے زیادہ کے 1,257 ہسپتال ہیں۔ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے اہلکاروں کی بات کی جائے تو پاکستان میں بنگلہ دیش کے مقابلے میں فی 10,000 آبادی میں ڈاکٹروں کی تعداد زیادہ ہے، بنگلہ دیش کے 5 کے مقابلے پاکستان میں ہر دس ہزار نفوس پر 8 ڈاکٹر ہیں۔ پاکستان میں ہر 10,000 آبادی پر نرسوں اور دائیوں کی تعداد بھی زیادہ ہے، بنگلہ دیش کی 11 کے مقابلے پاکستان میں یہ تعداد 17 ہے۔
پاکستان دنیا میں قدرتی گیس پیدا کرنے والے سب سے بڑے ممالک میں سے ایک ہے، جس کے پاس 19.5 ٹریلین کیوبک فٹ (TCF) کے ثابت شدہ ذخائر ہیں۔ اس کے برعکس، بنگلہ دیش کے پاس قدرتی گیس کے ذخائر بہت کم ہیں، جن کا تخمینہ لگ بھگ 10.6 ملین مکعب فٹ ہے۔
پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق اٹھاسی ہزار بیرل یومیہ خام تیل پیدا کرتا ہے، جبکہ بنگلہ دیش کی پیداوار محض چار ہزار بیرل یومیہ ہے۔
پاکستان میں گیس پائپ لائنوں کا ایک وسیع نیٹ ورک ہے، جو ملک بھر میں تقریباً 12,500 کلومیٹر پر محیط ہے، اور گیس کی ترسیل اور تقسیم کا ایک وسیع، مربوط اور منظم نظام قائم ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی گیس کی تقسیم کا نیٹ ورک موجود ہے، پورے ملک میں 7000 کلومیٹر پر محیط ہے۔
پاکستان میں تقریباً 40,600 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی مجموعی صلاحیت ہے، جس میں تھرمل ذرائع بشمول قدرتی گیس اور فرنس آئل کل صلاحیت کا تقریباً 65 فیصد ہیں۔ ہائیڈرو الیکٹرک پاور کل صلاحیت کا تقریباً 25 فیصد ہے، اس کے علاؤہ پاکستان میں سات جوہری، متعدد کوئلہ، ہوا اور شمسی توانائی کے پلانٹ بھی ہیں۔ اس کے برعکس، بنگلہ دیش کی بجلی کی کل نصب شدہ صلاحیت تقریباً 23,600 میگاواٹ ہے، جس میں تھرمل ذرائع کل صلاحیت کا تقریباً دو تہائی ہیں۔ بقیہ بجلی قابل تجدید ذرائع، خاص طور پر شمسی اور ہائڈل کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے، بنگلہ دیش کے پاس کوئی جوہری پلانٹ نہیں ہے۔
پاکستان کا بجلی کی تقسیم کا جال تقریباً 3 کروڑ دس لاکھ صارفین کے ساتھ نوے فی صد آبادی پر محیط ہے۔ جبکہ بنگلہ دیش میں تقریباً تین کروڑ چالیس لاکھ صارفین ہیں، اور یہاں بھی تقریباً 90 فیصد ابادی کو بجلی تک رسائی حاصل ہے۔
پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں ماضی میں بجلی کی مسلسل بندش اور لوڈ شیڈنگ کے ساتھ بجلی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ تاہم، دونوں ممالک نے حالیہ برسوں پیداوار بڑھانے میں نمایاں پیش رفت کی ہے، پاکستان کو 2013 میں تقریباً 6,000 میگاواٹ کے خسارے کے سامنا تھا۔ پاکستان نے 2013 سے 2018 تک کے عرصے میں بجلی کی پیداوار میں 1100 میگاواٹ کا اضافہ کیا اور 2020 میں تقریباً 5,000 میگاواٹ فاضل پیداوار کی صلاحیت حاصل کرلی، پاکستان میں موجودہ لوڈ شیڈنگ تقسیم کے نظام میں خرابیوں اور بجلی چوری کے سبب ہے، پیداواری صلاحیت کے حساب سے پاکستان میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہونی چاہیئے، جبکہ بنگلہ دیش میں بجلی کی پیداوار اور طلب میں خسارہ 2015 میں تقریباً 2,500 میگاواٹ سے گر کر 2020 میں تقریباً 700 میگاواٹ رہ گیا۔ بنگلہ دیش کو آج بھی اس شعبے میں خسارے کا سامنا ہے۔
پاکستان میں تقریباً 264,000 کلومیٹر سڑکوں کا جال بچھا ہے، جس میں سے تقریباً 50 فی صد یعنی 132,000 کلومیٹر پختہ سڑکیں ہیں۔ اس کے برعکس، بنگلہ دیش میں تقریباً 22,500 کلومیٹر پختہ سڑکوں کا جال بچھا ہے۔
موٹر ویز کی بات کی جائے تو پاکستان میں پہلی موٹروے ایم ٹو 1997 میں مکمل ہوئی تھی، اور اس کے بعد سے مختلف مراحل میں موٹرویز کو 1,800 کلومیٹر تک توسیع دی جاچکی ہے اور مزید پر تیزی سے کام ہو رہا ہے، پاکستان میں موٹرویز کافی جدید سہولیات سے آراستہ ہیں جیسے کہ سروس ایریاز، ریسٹ اسٹاپس اور متعدد لینز پر یک طرفہ ٹریفک، موٹروے پولیس اور دیکھ بھال و مرمت کا بھی اچھا انتظام ہے۔
دوسری طرف، بنگلہ دیش میں موٹروے کا نظام موجود نہیں، صرف ایک آپریشنل ہائی وے، یعنی ڈھاکہ چٹاگانگ ہائی وے، ہے جو تقریباً 190 کلومیٹر لمبی ہے۔ یہ ہائی وے محض چار لین پر مشتمل ہے، اور پاکستانی موٹر ویز کی طرح نہ تو جدید سہولیات سے آراستہ ہے نہ ہی اس کی دیکھ بھال اور مرمت کا معقول انتظام ہے۔
پاکستان میں ریلوے پٹری کی کل لمبائی 11,881 کلومیٹر ہے، جس میں سے تقریباً 7,791 کلومیٹر براڈ گیج (1.676 میٹر) اور تقریباً 4,090 کلومیٹر تنگ گیج (1.000 میٹر) ریل پٹریاں ہیں۔ اس کے برعکس، بنگلہ دیش میں کل ریلوے پٹری کی لمبائی تقریباً 2,835 کلومیٹر ہے، جس میں سے محض 659 کلومیٹر براڈ گیج اور تقریباً 2,176 کلومیٹر میٹر تنگ گیج (1.000 میٹر) ہیں۔
پاکستان میں تقریباً 151 ہوائی اڈے ہیں جن میں سے 11 بین الاقوامی ہوائی اڈے ہیں۔ اس کے برعکس، بنگلہ دیش میں صرف 19 ہوائی اڈے ہیں، جن میں سے صرف 3 بین الاقوامی ہوائی اڈے ہیں۔
چھ لاکھ پچاس ہزار نفوس پر مشتمل پاکستانی افواج دنیا کی چھٹی بڑی فوجی طاقت ہے، جب کہ بنگلہ دیش کی افواج ایک لاکھ ستر ہزار پر مشتمل ہے۔ پاکستان کا دفاعی بجٹ سات اعشاریہ تین ارب امریکی ڈالر جبکہ بنگلہ دیش کا چار اعشاریہ آٹھ ارب امریکی ڈالر ہے۔ پاکستانی افواج کا بجٹ مجموعی سالانہ حکومتی اخراجات کا 18 فی صد جبکہ بنگلہ دیش کا 8 فی صد ہے۔
پاکستان کی فضائیہ کے پاس 871 جبکہ بنگلہ دیش کے پاس 169 مختلف النوع طیارے ہیں، پاکستانی بحریہ کے پاس کم و بیش دو سو بحری جہاز اور 9 آبدوزیں ہیں جبکہ آٹھ مزید تکمیل کے مختلف مراحل میں ہیں، اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش کے پاس محض 80 بحری جہاز اور 2 آبدوزیں ہیں. پاکستانی مسلح افواج کے پاس تین سو سے زائد جبکہ بنگلہ دیش کے پاس 31 ہیلی کاپٹر ہیں۔ پاکستانی افواج کے پاس 3000 جدید ترین جنگی ٹینک ہیں جبکہ بنگلہ افواج کے پاس محض 550 نسبتاً پرانے ٹینک ہیں۔
ان اعداد و شمار کی روشنی میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جہاں معاشی شعبے میں اس وقت بنگلہ دیش کو معمولی برتری حاصل ہے وہیں بنیادی سہولتوں، مواصلاتی ڈھانچے، توانائی اور صنعتی شعبے میں پاکستان بنگلہ دیش سے کہیں آگے یا بہتر پوزیشن میں ہے۔
پاکستان کے پاس عمومی، کنٹینر اور تیل بردار 12 بڑے جہاز ہیں جبکہ بنگلہ دیش کے پاس ایسے جہازوں کی تعداد 71 ہے۔
کھیلوں کے میدان میں پاکستان کو بنگلہ دیش پر واضح برتری حاصل ہے۔ پاکستانی کھلاڑیوں نے عالمی سطح زیادہ اور وسیع میدانوں میں کامیابیاں سمیٹی ہیں، اسکواش، ہاکی، کرکٹ، باکسنگ، ریسلنگ، ٹینس، اسنوکر اور ایتھلیٹکس کے مختلف شعبوں میں پاکستان نے اولمپکس سمیت عالمی سطح پر کئی اعزازات حاصل کئے ہیں۔ اس کے برعکس بنگلہ دیش کو کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
قوموں کی تاریخ میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے، پاکستان اور بنگلہ دیش کبھی یک جان تھے، 1971 میں علیحدگی کے بعد اگر بنگلہ دیش نے معاشی اور تجارتی شعبوں میں اپنے بڑے بھائی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے تو یہ خوشی کی بات ہے اور ہمارے لئے بحیثیت قوم اور ہمارے فیصلہ سازوں کے لئے اس میں سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔
آپ کا تبصرہ ہمارے لئے اہمیت رکھتا ہے۔