"فتنہ گوہر شاہی، صوفی ازم اور روحانیت
محمد طارق خان
3 فروری، 2024
ریاض نامی یہ ملعون نومبر 1941 میں راولپنڈی کے ڈھوک گوہر شاہ میں پیدا ہوا۔ 1975 میں سہون شریف کا دورہ کرنے کے بعد اس نے نام نہاد صوفی ازم کا لبادہ اوڑھ لیا، اپنے آپ کو ایک پیر کہلوانا شروع کردیا۔ 80 کی دہائی کے آغاز تک یہ بزعم خود "ولی" بن گیا، مقبولیت حاصل کی اور کثیر تعداد میں پیروکار بنالیئے، شہرت ملی تو خود کو مہدی اور مسیح موعود قرار دے دیا اور بعد میں انسانی روپ میں خدائی کا دعویٰ کردیا... معاذ اللہ
90 کی دہائی میں جب اس کی گمراہ کن تعلیمات کا پتہ چلا تو عوام الناس اور اہل علم نے اس کے خلاف آواز بلند کی۔ سندھ ہائی کورٹ میں اس پر درج مقدمات کی سماعت شروع ہوئی تو اس نے فرار ہوکر برطانیہ میں پناہ حاصل کرلی، امریکہ بھی گیا ۔ متضاد اطلاعات کے مطابق 2001 میں وہ اچانک منظر عام سے غائب ہوگیا یعنی اس کی موت ہو گئی... سندھ ہائی کورٹ نے اس کی عدم موجودگی میں اسے 59 سال کی قید و بند کا حکم صادر کیا۔
اس کی بنائی ہوئی تنظیمات انجمن سرفروشانِ اسلام اور ریاض گوہر شاہی انٹرنیشنل پر پابندی عائد کردی گئی، جس کے بعد اس کے پیرو گئے زیر زمین چلے گئے، روہوش ہو گئے یا ملک سے فرار ہوگئے۔
ریاض گوہر شاہی کی 2001 میں اس پر اسرار موت کے بعد اور اس کے کام اور تنظیم کی بھاگ دوڑ 1969 میں کراچی میں پیدا ہونے والے اس کے ایک دیرینہ شاگرد محمد یونس نے سنبھالی، اور اپنے لئے الگوہر لقب اختیار کرکے یونس الگوہر کے نام سے مشہور ہوا۔ یونس خود کو گوہر شاہی کا خلیفہ اور "گرینڈ صوفی ماسٹر" قرار دیتا ہے۔ اس نے ورلڈ صوفی ازم مشن، مسیحا فاؤنڈیشن، المہدی فاؤنڈیشن اور الرآ (یعنی ریاض خدا ہے) کے نام سے یوٹیوب چینل کی بنیاد رکھی اور یہ دعویٰ کر دیا کہ وہ مسیح ثانی ہے۔
یونس الگوہر لندن میں مقیم ہے، جہاں اس کے متعدد چیلے بھی پاکستان سے فرار ہو کر پناہ گزینی کی زندگی گزار رہے ہیں، یونس کا دعویٰ ہے کہ 1997 میں اس نے حضرت عیسی سے دو بدو ملاقات کی، یونس اپنے اِن گمراہ کن عقاید کو سوشل میڈیا بالخصوص یوٹیوب اور انسٹاگرام کے ذریعے پھیلاتا ہے۔
یونس اپنی اشتعال انگیز تقاریر و تحریر کے لیے مشہور ہے، خاص طور پر پاکستان اور علماء کے خلاف۔ جو لوگ اس کی تقاریر سن چکے ہیں اور فتنہ گوہر شاہی کو جانتے ہیں، وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ یونس اپنی تحریر و تقریر میں جن گمراہ کن تعلیمات اور عقاید کی ترویج کرتا ہے اس میں "صوفی"، "صوفی ازم"، "روحانیت"، اور "روحانی" جیسی اصطلاحات کا بکثرت استعمال کرتا ہے۔
2011 میں یونس الگوہر نے پاکستان میں "تبدیلی" کے لیے ایک منصوبہ شروع کرنے کا دعویٰ کیا اس کا کہنا تھا کہ پاکستان کو مہدویت کے لئے تیار کیا جائے گا، ملاؤں کے لئے مکہ جانا دشوار اور جبکہ ہر خاص و عام کے لئے اسرائیل جانا آسان بنایا جائے، اس کا دعویٰ تھا کہ عمران خان اس تبدیلی کا چہرہ ہے۔ (یہ سب یونس کی اپنی زبانی یوٹیوب، انسٹاگرام اور فیس بک وغیرہ پر دستیاب ہے، میں پہلے بھی مکمل حوالہ جات کے ساتھ اس پر لکھ چکا ہوں)۔
یونس عمران خان کی حمایت میں انتہائی جذباتی بیانات جاری کرتا رہتا ہے جبکہ عمران مخالف تمام سیاستدان خصوصاً مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف کے خلاف انتہائی غلیظ اور الزامات سے بھرپور زبان استعمال کرتا ہے۔
2021 میں جب عمران خان کی سربراہی میں پی ٹی آئی حکومت نے احمقانہ فیصلوں کے ذریعے خود کو مشکلات کا شکار بنایا، تو یونس نے کھل کر افواج پاکستان، عسکری قیادت، ایسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے سیاسی مخالفین پر بھرپور لفظی گولہ باری کی اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔
2022 میں انہوں نے افواج پاکستان کے موجودہ سربراہ جنرل عاصم منیر کا نام لے کر دھمکیاں دیں کہ اگر عمران خان کو بحال نہ کیا گیا تو عاصم منیر، افواج اور پاکستان کو خطرناک نتائج کا سامنا کرنا ہو گا۔
گوہر شاہی فتنے کے تمام پیروکار پی ٹی آئی اور عمران خان کے کے شدید حامی ہیں، تمام جلسوں جلوسوں میں پیش پیش رہتے اور اپنی موجودگی کا برملا اظہار کرتے ہیں اور ان میں سے کئی ایک کو گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی نے پارٹی ٹکٹ جاری کئے (میں اس کے بارے تمام تر حوالہ جات کے ساتھ تفصیل سے لکھتا رہا ہوں)۔
اس فتنے کے پیروکاروں کی شناخت آسان نہیں کیونکہ بظاہر ان کے نام عام مسلمانوں والے نام ہی ہوتے ہیں اور یہ اپنی تحریر و تقریر میں کم و بیش وہی زبان، اصطلاحات استعمال کرتے اور قرآن و حدیث سے حوالے دیتے نظر آتے ہیں جو عام مسلمان بھی دیتے ہیں ۔ انہیں جو چیز قدرے مختلف بناتی ہے وہ روحانی، روحانیت، صوفی، صوفی ازم جیسی اصطلاحات کا بکثرت استعمال اور ایک دل نما نشان ہے جس وہ بطور پہچان استعمال کرتے ہیں۔ ایک اور نشانی ان کی یہ ہے کہ یہ لوگ ہم مسلمانوں کے ساتھ عام مساجد میں نماز نہیں پڑھتے اور نہ ہی کسی مسلمان کی نماز جنازہ میں شرکت کرتے ہیں۔
پاکستان سے فرار ہونے اور برطانیہ میں محفوظ پناہ گاہ ملنے کے بعد سے ان کا بنیادی ہتھیار سوشل میڈیا ہے، گوہر شاہی فتنہ بلا مبالغہ سوشل میڈیا کے تمام تر پلیٹ فارمز پر لاکھوں نہیں تو ہزاروں جعلی اکاؤنٹس چلاتا ہے جن میں سے اکثر "خواتین" کے نام سے چلائے جاتے ہیں۔
بظاہر ماڈرن اور پرکشش نظر آنے والی یہ خواتین، اصلی ہوں یا نقلی، یونس الگوہر کے سماجی رابطہ ٹیم کا اہم ہتھیار ہیں اور گوہر شاہی کے مذموم نظریات، اسلام اور پاکستان مخالف پراپیگینڈے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ یہ لڑکیاں کم علم اور کم فہم مسلمان نوجوان کو پھنسانے کے لیے ہنی ٹریپ کے طور پر استعمال ہوتی ہیں. اور سب کی سب عمران خان اور پی ٹی آئی کی حمایت میں پراپیگینڈہ مہم بھی چلاتی ہیں۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ پی ٹی آئی اور عمران خان بھی بعینہ یہی اصطلاحات اور ایسے ہی ٹولز استعمال کرتے ہیں، یونس الگوہر اور عمران خان کے متعلقین کے استعمال کردہ ایسے کچھ مشترکات کی فہرست دیکھیئے:
1. تبدیلی
2. صوفی اور صوفی ازم (صوفی یونیورسٹی یاد ہے؟)
3. روحانیت (یا رہونیت جیسا کہ عمران خان کہتے ہیں)
4. مغلظات بکنا (مشہور گالی بریگیڈ تو یاد ہے نا جس کو مخالفین نے یوتھیا کا نام دیا)
5. ماڈرن نظر آنے والی لڑکیاں (صنم جاوید اور خدیجہ شاہ وغیرہ یاد ہے؟)
6. ہنی ٹریپ کرنا (جلسوں میں لڑکیاں بطور ترغیب لانا، مخلوط محافل اور کنسرٹس یاد تو ہوں گے)
7. جعلی اکاؤنٹس (اور آٹو بوٹس ۔۔۔ ارسلان بیٹا انہیں غداری سے جوڑ دو)
8. مذہبی رہنماؤں سے نفرت (مولانا کو ڈیزل وغیرہ کہنا)
9. عام مسلمانوں کی مساجد میں نماز، اور کسی مسلمان کی نماز جنازہ نہ پڑھنا (کیا آپ کو یاد ہے کہ عمران خان کبھی نماز جنازہ میں شرکت نہیں کرتے یا عام مسجد میں امام کے پیچھے نماز پڑھتے نظر نہیں آتے؟)
10. مضبوط سوشل میڈیا (لاکھوں فالوورز کروڑوں لائکس)
جب آپ اوپر دی گئی فہرست پڑھتے ہیں تو آپ کے ذہن میں کیا آتا ہے؟ پی ٹی آئی؟ حالانکہ یہ فتنہ گوہر شاہی کی خصوصیات اور شعائر ہیں۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ محض اتفاق ہے کہ عمران خان کو جب جیل بھیجا گیا اور الیکشن کمیشن نے PTI سے انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کا تقاضہ کیا، تو انتخابات کروانے کے بجائے عمران خان نے ایک غیر معروف شخص کو چیئرمین کے طور پر تعینات کرنے کا حیرت انگیز فیصلہ کیا؟ گوہر خان ایڈووکیٹ، کیا آپ کو گوہر نام کی مماثلت اتفاقیہ لگتی ہے؟
میں جلد ہی گوہر شاہی اور عمران خان کے درمیان تعلقات کے مزید ثبوت شائع کروں گا، اس دوران آپ ان نکات پر از خود تحقیق کریں۔
وما علینا الا البلاغ المبین
آپ کا تبصرہ ہمارے لئے اہمیت رکھتا ہے۔